اردو کے کرشماتی افسانہ نگار انتظار حسین نے یادداشتوں کو ٹٹول کر کہانی بنا دیا تو ان پر ناسٹیلجیا کی پھبتی کسی گئی، خاص طور پر مغربی ادب سے خوشہ چینی کر کے اپنی تہذیب اور تجربے کو بیان کرنے والے ادیبوں نے۔ یہ بحث ہمارے ہاں عشروں چلی۔ جس پر ایسے ایسے خیالات ظہور میں آئے کہ حیرت ہوتی ہے، مثلا اسی ماضی پرستی کو بنیاد بنا کرایک جید صحافی نے جو خود بھی ادب کی وادی سے صحافت کی دنیا میں آئے، یہ سوال کیا کہ کیا آپ کی ماضی پرستی اور ایم کیوایم کی ہجرتی سیاست، سب ایک ہی پودے کی شاخیں ہیں؟ انٹرویو کے دوران غیر معمولی حد تک سنجیدہ رہنے والے انتظار حسین اس سوال پر مسکرائے، پھر سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ نہ میرے ادب کو سمجھ پائے ہیں اور نہ اُس طرز سیاست کو جس کی بنیاد ایم کیو ایم نے ڈالی۔
انتظار حسین نے یہ کہا اور خاموش ہوگئے۔ اچھے اور بڑے ادیب کی بھی پہچان یہی ہے کہ وہ الفاظ کے دریا نہ بہائے بلکہ اشارے کنائے سے وہ سب کچھ کہہ دے جو وہ کہنا چاہتا ہے۔ انتظار صاحب بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ انہوں نے دفتر کے دفتر لکھ ڈالے لیکن جو بات بھی کہی، اختصار سے کہی اور خوب کہی۔ خیر انتظار صاحب کی ماضی پرستی سے بات نکلی اور دور جا نکلی۔ کہنا دراصل یہ ہے کہ یہ ماضی کے واقعات ہی ہوتے ہیں جن کی کشش انسان کو متوجہ کرتی ہے۔ صاحبان ذوق ماضی کے دریچوں میں جھانک کر ان سے لطف ہی نہیں لیتے، کچھ دیر خوابوں کی فضا میں ہی نہیں رہتے بلکہ گزرے ہوئے ان واقعات سے سبق بھی کشید کرتے ہیں۔
اس نصیحت کی بنیاد ادب بھی بنتا ہے اور ایسی تحریریں بھی جو ادب کی ذیل گاہے آتی ہیں، گاہے نہیں آتیں۔ یہی سبب رہا ہوگا کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے لوگ جب اپنی ذمہ داری ادا کرکے سبکدوش ہو جاتے ہیں تو اپنے اپنے تجربات کو سپرد قلم کر دیتے ہیں۔ یہ اپنے تجربات کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ایک باپ اپنی اولاد کو ترکہ اور اپنی روایات منتقل کر تا ہے۔ تحریری یادداشتیں ایک بڑی سطح پر ایک عہد کی اجتماعی یادداشت کو نسل نوتک منتقل کرنے کی ایک شعوری اور سنجیدہ کوشش ہوتی ہے۔
اردو صحافت کا دامن اس باب میں مفلسی کا شکار نہیں رہا۔ ہمارے بزرگوں نے اس سلسلے میں شاندار روایت قائم کی ہے، جیسے ڈاکٹر عبدالسلام نے ”رو میں ہے رخشِ عمر“کے عنوان سے ایک شاندار خود نوشت سپرد قلم کی جس کے مطالعے کے بغیر اُس عہد کو سمجھنا ممکن نہیں۔ ان کے بعد کی نسل میں سے محمد سعید اس میدان میں اترے اور ”آواز بازگشت“کے عنوان سے تحریک خلافت سے لے کر کر فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے تک کے مشاہدات قلم بند کر دیئے۔ یہ کتاب ایسے حیران کن واقعات اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے کہ یقین نہیں آتا کہ ہمارے ملک میں کیسے کیسے کھیل کھیلے گئے ہیں۔ یہ کتابیں ایسی ہیں جن کے مطالعہ سے قاری کے سامنے نہ صرف تاریخی حالات کی ایک مختلف تصویر سامنے آتی ہے بلکہ نہایت آسانی کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے ہے کہ وطن عزیز مختلف حادثات سے کیسے دوچار ہوا؟ مثلاً متفقہ آئین کیوں نہ بن پایا۔ سویلین بالادستی کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا۔ آئین شکنی کی روایت کے پسِ پشت کیا عوامل کا ر فرما تھے اور اس ملک پر جنگیں کیسے مسلط ہوئیں؟ ان معاملات میں تاریخ کی کتابیں اگر ایک نکتہ نظر پیش کرتی ہیں تواس کے مقا بلے میں اس نوعیت کی یا دداشتیں تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتی ہیں۔ اگر معاملات کو سمجھنے کی نیت ہو نیز ان تجربات کے استفادے پرطبیعت آمادہ، تو نہایت اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تحریریں ہی ہمارے دکھ کی شافی دوا بن سکتی ہیں۔
یادداشتیں قلم بند کرنے کی یہ روایت ہمارے ہاں ایک زمانے تک توانا رہی۔ ہمارے بزرگ اپنی ڈائری مرتب کرتے اور ان کی مدد سے قوم کواپنے اپنے زمانوں کی کھلی اور چھپی داستانیں ہم تک منتقل کردیتے۔ گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران صحافی برادری میں یہ روایت کمزور ہوئی ہے حالانکہ ہمارا ملک اس عرصے کے دوران جن بہت سے مسائل سے دوچار ہوا ہے اس زمانے کے بہت سے واقعات نے اُسے بنیا د فراہم کی ہے جیسے افغانستان کا تنازع، جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، جنرل ضیا کے بعد جنرل پرویز مشرف تک کے حالات جن میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار بھی شامل ہیں اور کارگل کی مہم جوئی بھی۔ اس اعتبار سے یہ ایک بھر پور دور ہے۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف اور اس زمانے کے واقعات ہیں جن کے بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ یہ پورا خطہ متاثر ہوا۔
اس پس منظر میں شدید ضرورت تھی کہ کوئی صحافی اس عہد کو قلم بند کرنے پر توجہ دے۔ بد قسمتی سے ہماری صحافت اس عہد میں جو مزاج اختیار کر چکی ہے اس کے پیش نظر بہ ظاہر یہی لگتا تھا کہ یہ عہد اپنے زمانے کی گو اہی دیے بغیر ہی گزر جائے گا لیکن برادر محترم حنیف خالد کا بھلا ہو کہ انہوں نے ہمت کر کے اپنے زمانہ صحافت کی بہت سی تفصیلات قلم بند کر ڈالیں۔
حنیف خالد ایک سیلف میڈ شخصیت ہیں جنھوں نے محنت اور جدوجہد سے اپنی دنیا آپ بنائی ہے۔ خواب دیکھنے والا ایک محنت کش زندگی کے کن مراحل سے گزرتا ہے اور جب وہ ان دیکھی دنیاؤں سے گزرتا ہے تو وہ کیا سوچتا اور محسوس کرتا ہے؟ یہ کہانی انھوں نے جس خوبی اور سادگی سے بیان کی ہے، وہ قابل داد ہے۔ جامعہ پنجاب حنیف خالد کی مادر علمی ہے۔ خاموش، محنتی اور کسی قدر شرمیلے حنیف خالد نے جب نیو کیمپس کی نہر میں کشتی رانی کرتے ہوئے لڑکے لڑکیوں کو دیکھا تو انھیں لگا کہ جیسے جنت تو یہی ہے۔ خودنوشتیں لکھنے والے لوگ اکثر اپنی اس طرح کی حیرتوں کو نہ صرف چھپا جاتے ہیں بلکہ اپنے فن افسانہ نگاری سے خود کو ہیرو کی حیثیت سے بھی پیش کرتے ہیں لیکن سچ لکھنے والے حنیف خالد کی طرح سے ہوتے ہیں۔
یہ کتاب مصنف کی ذاتی جدو جہد کی کہانی ہی بیان نہیں کرتی بلکہ بہت سے قومی رازوں کو بھی منکشف کرتی ہے۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن ہماری قومی زندگی کا ایک اہم اور افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس بارے میں عالمی طاقتوں نے پروپیگنڈے کی جو گرد اٹھائی اس میں بہت سے حقائق دب کر رہ گئے۔ حنیف خالد سوال اٹھاتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے گردے تو فیل ہو چکے تھے اور ڈائلیسز کے بغیران کا زندہ رہنا ممکن ہی نہ تھا۔ ایک ایسے شخص کا ایبٹ آباد میں برسوں قیام کرنا کیسے ممکن ہے جہاں ڈائلیسز کی سہولت ہی نہ ہو؟ یہ سوال ایک جوابی منظر نامہ پیش کرتا ہے جو زمانہ ہواعالمی ریشہ دوانیوں کے بوجھ تلے دب چکا لیکن حنیف خالد نے یہ سوال اٹھا کر مؤرخ کے سامنے ایک نئی حقیقت پیش کر دی ہے۔
آبی ذخائر اور توانائی کے وسائل پاکستان کا ایک نہایت ہی حساس مسئلہ ہیں۔ ان معاملات کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں بہت کچھ شائع ہوتا رہتا ہے اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقائی اور مفاداتی سیاست کے شاخسانے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ تھرکول پراجیکٹ کی ناکامی اور کالاباغ ڈیم سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر میں اصل رکاوٹ وہ مافیا ہے جس کا دھندا بیرون ملک سے خام تیل کی درآمد ہے۔ آج کل ہمیں شکایت ہے کہ متعلقہ اداروں نے جامعات کی امداد میں کمی کیوں کردی؟ درست شکایت ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اس کا آغاز کب ہوا اور اس کا اصل سبب کیا ہے اور یہ کس حکمراں نے کب کہا تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ ملک میں سرکاری سطح پر کوئی ایک یونیورسٹی بھی ہو۔ ایک طاقت ور وزیر نے ایسا کیوں کہا، اس کے پس پردہ کیا سازش کارفرما تھی؟ حنیف خالد نے ایسی بے شمار کہانیاں لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کردی ہیں۔ وہ نوجوان کو صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرنے پر کمر بستہ ہیں اور وہ محقق جو اس گزشتہ نصف صدی کی پرپیچ کہانیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں، اس جہان حیرت سے گزرے بغیر اپنے کام کا حق نہیں ادا کرپائیں گے۔