نئے کورونا وائرس کی وجہ سے چین میں ہونے والی اموات کے بعد عالمی ادارہ صحت نے انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کے تحت عالمی ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیا ہے۔ اس ہنگامی صورتحال کو مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ نیا کورونا وائرس دیگر ممالک میں بھی چین کی طرح صحت عامہ کے لئے سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کے مطابق جب کسی بیماری کے ایک سے زائد ممالک میں کسی بھی وجہ سے (مثلا بین الاقوامی سفر اور نقل و حرکت وغیرہ) پھیلنے کے سنجیدہ خدشات موجود ہوں تو اس کے تدارک اور روک تھام کے لئے قبل از وقت احتیاطی اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ کورونا وائرس کے بارے میں سفری پابندیوں یا محدود سفری اجازت کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
کورونا وائرس سے اس بار جو بیماری سامنے آئی ہے وہ پہلے سے معلوم کورونا وائرس کی نسبت مختلف ہے۔ یعنی یہ ایک نئے کورونا وائرس کی کارستانی ہے۔ اسی لئے اس وائرس کی تشخیص و علاج کا کوئی خاص انتظام ابھی تک موجود نہیں ہے۔ اسی لئے تشخیص کے لئے تفصیلی پروٹوکول کے حامل طریقہ کار کی ضرورت ہے اور علاج کے سلسلے میں کثیرالجہتی تکنیک استعمال کی جارہی ہے کہ اس وائرس کا مخصوص توڑ اس وقت معلوم نہیں ہے۔
کورونا وائرس پر عمومی نوعیت کی تحقیق مختلف لیبارٹریوں میں چل رہی ہے۔ اس وائرس کی پہلے سے معلوم ایک صورت پر پیٹنٹ بھی فائل کیا جاچکا ہے۔ ان نئے وائرس کے سامنے آنے کے بعد اگر یہ ایک بڑی بیماری کے طور پر ابھرتا ہے تو اس بات کا قوی احتمال موجود ہے کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی فارماسیوٹیکل کمپنیاں تشخیص و علاج کی اس نئی مارکیٹ کو ہتھیانے کے لئے کود پڑیں گی۔ سارس وائرس اور انفلوئنزا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح مختلف لیبارٹریوں اور کمپنیوں کے درمیان وائرس کو ہتھیانے اور اپنی مناپلی قائم کرنے کے لئے پیٹنٹس قوانین کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جب سے حیاتیاتی میٹریل پر پیٹنٹس کو جائز اور روا مانا گیا ہے اس کے بعد سے بیکٹیریا’ وائرس اور اس نوعیت کی لائف فارمز پر انٹیلیکچول پراپرٹی قوانین کے تحت پیٹنٹس دیئے جاتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اینزائمز اور انسانی جسم میں موجود دیگر رطوبات کو بھی پیٹنٹس میں کلیم کر کے کارپوریٹ پراپرٹی بنا لیا جاتا ہے اور کمپنیوں کی ملکیت کا دائرہ کار انسانی جسم کے اندر تک وسیع ہوجاتا ہے۔
اگر کورونا وائرس کے اس نئے وجود کو کوئی لیبارٹری اس طرح دریافت کرلیتی ہے کہ وائرس کیسے انسانی جسم میں بیماری پیدا کرتا ہے تو وہ اس وائرس کے انسانی جسم میں بیماری پیدا کرنے کے عمل کو اپنی ایجاد قرار دے کر اس پر پیٹنٹ فائل کر دے گی۔ جونہی یہ پیٹنٹ رجسٹر ہوگا اس کا لازمی مطلب یہ نکلے گا کہ وائرس کے اس مخصوص بیماری پیدا کرنے کے عمل (جو کہ پیٹنٹ میں بیان کیا گیا ہے) کو کوئی دوسرا شخص پیٹنٹ کے مالک کی مرضی و منشاء کے بغیر استعمال نہیں کرسکے گا۔ اب یہ لیبارٹری یا کمپنی اگر اس وائرس کی تشخیص کے لئے کوئی ٹیسٹ ایجاد کرتی ہے تو اس کے لئے بھی علیحدہ سے پیٹنٹس فائل کئے جائیں گے۔ اس کا مطلب بھی لازمی طور پر یہ ہے کہ اس ٹیسٹ پر بھی مناپلی قائم ہوجائے گی۔ مزید آگے چلیں تو یہ بھی ہوگا کہ اگر اس بیماری کے علاج کے طور پر ویکسین یا کوئی اور دوا ایجاد ہوگی تو وہ بھی پیٹنٹس کے ذریعے کمپنی کی ملکیت میں رہے گی اور کوئی دوسری کمپنی اس دوا کو اجازت کے بغیر نہیں بنا سکے گی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ دوا جب مریض استعمال کرے گا تو یہ انسانی جسم میں داخل ہو کر جب مخصوص اعضاء پر اپنا اثر دیکھائے گی تو اس دوران اگر کوئی رطوبت یا اینزائم خارج ہوا تو اسے بھی کمپنی اپنی ایجاد و اختراع کے طور پر پیٹنٹ کروا سکتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جسم بھی مریض کا اور بیماری بھی اس کے وجود کے اندر’ اور جب وہ دوا کھائے اور اس سے پہلے سے جسم میں موجود رطوبت کے بہاو کو بڑھاوا ملے تو یہ بھی کمپنی کی ملکیت میں شامل ہو جائے!
یہ ہے بائیولوجیکل ایجادات اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے پیٹنٹس کی کل کہانی! اس لئے انتظار کریں کہ اگر خدانخواستہ یہ نیا کورونا وائرس اگر کسی بڑی بیماری کا پیش خیمہ بن گیا تو آپ فارماسیوٹیکل کمپنیوں اور ان کے فنڈنگ پر چلنے والی یونیورسٹیوں اور ریسرچ سینٹرز کے درمیان برپا ہونے والی پیٹنٹ وارز کے کئی ادوار دیکھیں گے۔
پس نوشت: یہ نیا کورونا وائرس ابھی تک پیٹنٹ نہیں ہوا اور انٹرنیٹ پر اس حوالے سے بہت سی غلط معلومات سازش تھیوری کے طور پر گردش کر رہی ہیں۔ سو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ برطانیہ کے Pirbright Institute کے پاس 2015 کا ایک کورونا وائرس سے متعلق پیٹنٹ موجود ہے مگر یہ پیٹنٹ چین میں اس وقت پھیلنے والے نئے وائرس کا احاطہ نہیں کرتا۔