بزرگوں کی قدم بوسی ہمیشہ برگ وبار لاتی ہے۔ استنبول آمد پر میں نے ایوپ سلطان(مرقد مبارک حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ) پر حاضری کو معمول بنایا توانھوں نے بھی مجھے بارباراپنے گلی کوچوں میں طلب کیا، اس طرح کہ میں اِ س دیار کے گلی کوچوں کا بھیدی بن گیا۔ مرقد مبارک سے ملحق مسجد میں تو میں نے ایک ایسی بات سیکھی جس پر ہمارے ہاں شاید کبھی سوچا بھی نہیں گیا۔
اِس کہانی کا تعلق جمعے کی ایک نماز سے ہے۔ہم لوگ دن بھر شہر میں مارے مارے گھومتے، ڈاکٹر خلیل طوقار یونیورسٹی میں مصروف ہوجاتے اور میں کیمپس سے نکلتا، کبھی طلبہ کے لیے سستی ٹی شرٹ اور جینز بیچنے والوں کے دکانوں کے اوپرسے گھوم کر سیڑھیاں اترکر میٹرو کا مسافر بن کر کہیں جا نکلتا اور کبھی الٹی سمت جاکر اس کہنہ دروازے کے نیچے سے گزر کر اس گہرے سرمئی مجسمے پر ایک نظر ڈالتاجس میں دیو قامت اتاترک کے دائیں بائیں دو طلبہ پرچم اور مشعل اٹھائے منزل کا سراغ دیتے ہیں۔عمارت کا صدر دروازہ دیکھ کر مجھے ہمیشہ اپنے جادو بیاں قصہ گو میر امن کی یاد آتی ۔ ان کا ایک ڈائیلاگ”ایک بار دیکھا،بار بار دیکھنے کی ہوس ہے“ سیکڑوں برس گزر جانے کے بعد بھی تازہ، بامعنی اور مختلف قسم کے حالات میں حسبِ حال ہے ۔ سیکڑوں برس قدیم اس دروازے میں جانے کیا کشش ہے کہ جب بھی میں اس شہر میں آتا ہوں،اِس کی طرف کھچا چلا جاتا ہوں۔
وہ شہر جس کی عمارتوں کی منڈیروں پر کبوتر بیٹھا کریں اور عمارتوں کے قدرتی رنگ میں گزر جانے والی صدیوں کے سائے گھل مل کر ایک نیا رنگ تخلیق کریں جسے سیاہ کہناچاہیں تو کہہ نہ سکیں،سرمئی سمجھنا چاہیں تو سمجھ نہ سکیں۔ بس، اس رنگ کی کچھ اپنی ہی قسم ہوتی ہے ،لاہور کے شاہی قلعے کی دیواروں پر بکھری پرانے وقتوں کی پُر پیچ داستانوں کی طرح۔یہ دروازہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، قدیم، بلند و بالااور رفیع الشان۔اس عمارت کی کہنگی اپنی جگہ لیکن دو رنگ ایسے ہیں جن پر زمانے کے اتار چڑھاؤکی دھول کا کچھ اثر نہیں ہوا، اِن رنگوں میں ایک تو سبزہے، گنبد خضرا کے سدا بہار سبزے سے کشید کیا ہوا ، اور دوسرا سنہری۔اس دروازے کی تین محرابیں ہیں اور ہر محراب کی پیشانی پر ایک سبز پینل جس کے بیچوں بیچ نک سُک سے درست خظِ نسخ میںسنہرے سے دائیں بائیں دو آیات ”انا فتحنالک فتحامبینا اور و ینصرک اللہ نصراً عزیزا“ درج ہیں، درمیانی محراب پر لکھا ہے: ”دائرہ امور عسکریہ“۔یہ تینوں تحریریں ایک اور قرآنی آیت کی یاد دلاتی ہیں، ”و تلک الایامُ نداولہابین الناس“ یعنی ہم یہ دن لوگوں میں باری باری بدلتے رہتے ہیں۔ایک زمانہ تھا، یہ عمارت ترک سلطان کی وزارت عسکری امور ہوا کرتی تھی، آج یونیورسٹی ہے جس کی خبر اسی سنہری رنگت میں اسی جگہ عسکریت سے ذرا بلند مقام سے ملتی ہے۔ اُس زمانے کے وزیر عسکری امور کے دفتر کی آن بان بھی دیکھنے والی ہے۔اِس مسافر کو کئی حکمرانوں کے دفاتر دیکھنے کے مواقع ملے لیکن یہ دفتر سب سے جدا ہے، دیواریں، اُن کی آرائش، فرنیچر، الماریاںاور دیگر سب کچھ ایسا شان دار ہے کہ بار بار دیکھنے کو جی چاہتا ہے،آج کل یہاں اس جامعہ کے ریکٹر بیٹھتے ہیں اور علم و ہنرکے موتی بکھیرتے ہیں۔میری یہاں ڈاکٹر اے کے محمود سے ملاقات ہوئی جو گزشتہ کئی برس سے اس یونیورسٹی کے ریکٹر ہیں ۔
اتنا کچھ گھومنے پھرنے کے بعد بھوک لگ ہی جاتی ہے جس کا علاج یہاں نہیں، اس سے ذرا آگے مسجد بیازد کے قریب مکئی کے بھٹے ہیں جنھیں خریدتے ہوئے بچپن یاد آجاتا ہے جب ایک دو آنوں میں کھانے پینے کو اتنا کچھ مل جاتا کہ ختم ہونے میں نہ آتا۔یہیںسے ایک بغلی راستے سے مسجد میں داخل ہوتے ہیں۔سولہویںصدی عیسوی میں سلطان بایزید(ترکی لہجے میں بیازد) کی تعمیر کی ہوئی یہ مسجد تاریخ کے ایک منفرد عہد کی یاد گار ہے۔مسجدکے گرد ونواح میں کبھی ایک بازار ہوا کرتا ،رومی شہنشاہ تھیوڈوسس کی یاد گار۔اس بازار کے آثار اور رومی شہنشاہوں کے نادر مجسمے آج بھی یہاں آنے والوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔بس، اسی کوچے میں سلطان بایزید نے مسجد کی بنیاد ڈالی۔ مسجد کا نظارہ عظیم مسیحی معبد آیا صوفیہ کی یاد تازہ کرتا ہے گویا واضح کرتا ہے کہ جب دوعظیم تہذیبوں کے درمیان زمانے کی الٹ پھیر سے رابطہ استوار ہوتا ہے تو بات چیت، نشست و برخواست حتیٰ کہ تعمیرات تک اثر قبول کرکے انسانی تہذیب کو نیا بانکپن اور جاودانی عطا کرتی ہیں۔میں ان ہی خیالوں میں غرق مسجد کے دروازے کی طرف بڑھا تو راستے میں ایک ہدایت نامہ آگیا، ایسا ہی ایک ہدایت نامہ جیسے ہماری مسجدوں کے اندر ہواکرتاہے، موبائل فون پر کراس والے۔یہاں مسجد سے باہر جوتے اتارنے کی جگہ پر دو پاؤں دکھائے گئے تھے ،ایک جس پر اترتا ہوا موزہ دکھایا گیااور دوسرا موزے سمیت، پہلی تصویر کوموبائل فون کی طرح سرخ کراس کردیا گیا تھا۔ایسا ہی ایک ہدایت نامہ سب سے پہلے میں نے جامعہ حضرت ابوایوب میں دیکھا تھا،میں نے ہدایت نامہ دیکھا، کچھ سمجھا ،کچھ نہ سمجھا۔اس بات کی سمجھ اگلے روز آئی۔
یہ جمعے کا دن تھا، بھائی خلیل طوقار ہمارے بزرگ اہلِ علم کی طرح دیرتک جاگتے ہیں اور لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں،اس لیے اسکول جانے والے بچوں کی طرح منہ اندھیرے اٹھ کر ٹامک ٹوئیاں نہیں مارتے لیکن یہ ایک مختلف دن تھا۔ وہ صبح ہی سے مصروف تھے، کبھی کپڑے تیار کرتے، کبھی خوشبو کا اہتمام کرتے جب یہ سب ہوگیا تو مجھے بھی تیار ہونے کا حکم دیا۔وضو بنا کر میں نے سلیپر پہنے اور چلنے کو تیار ہوگیا لیکن میزبان کو دیکھ کر لگتا تھا کہ مطمئن نہیں ہیں، میں نے سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا تو کہا، موزے تو پہن لو۔میری آنکھوں کے سامنے مسجدایوپ سلطان کادروازہ، اس پر لگا ہدایت نامہ نیز ترکوں پر پیار آگیا۔ یہ لوگ مسجد میں ننگے پاؤںکبھی نہیں جاتے،ہمیشہ موزے پہن کر جاتے ہیں۔”اس احتیاط کا سبب؟“۔میں نے سوال کیا تو خلیل طوقار مسکرائے، کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ پیروں میں آنے والے پسینے سے مسجد کی صفیں اور قالین آلودہ ہوں اور ان سے ناگوار بو آئے۔
وہ پہلی بار تھی جب میں نے ایک خاص شعور کے ساتھ موزے پہن کر نماز پڑھی اور نغز گو شاعر جناب اظہار الحق کو یاد کیا جو ایک باراسلام آباد میں جناح سپر کی کسی مسجد میں گئے لیکن میل اور بوسے گندھے ہوئے قالین پر نماز پڑھنا ان کے لیے مشکل ہوگیاتھا۔