ڈبلیو ایچ او کے مطابق چین میں کورونا وائرس سے اب تک ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس وبا سے نمٹنے کے لیے فوری تیاری کی ضرورت ہے۔ اس ادارے کے سربراہ ٹیڈروز ایڈہانوم گيبریئس کا کہنا تھا، ’’سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر ہلچل پیدا کرنے کے لیے ایک وائرس دہشتگردانہ حملے سے بھی کہیں زیادہ طاقت ور ہے۔ اگر دنیا اس کے تئیں بیدار نہیں ہوتی اور اس وبا کو عوام کا دشمن نمبر ایک نہیں سمجھتی تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے اسباق سے کچھ سیکھنا نہیں چاہتے۔ یہ پوری دنیا اور انسانیت کے لیے اوّل نمبر کا دشمن ہے۔‘‘
بدھ بارہ فروری تک اس وبا سے ہلاکتوں کی تعداد 1013 تک بتائی گئی ہے۔ چین کا صوبہ ہوبی کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ہوا ہے، جہاں منگل کے روز مزید 2015 افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے، جو تیس جنوری کے بعد سے اب تک کی سب سے کم تعداد ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ گیبریئرس نے اس وبا کی روک تھام کے لیے سرمایہ کاری کرنے اور صحت کے شعبے میں کمزور ممالک کی مدد کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا،’’اگر یہ وائرس طبی سہولیات کے حوالے سے کمزور نظام والے ممالک تک پہنچ گیا تو تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ ابھی تک تو ایسا نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا نہیں ہو گا، یہ ہو بھی سکتا ہے۔‘‘
کورونا کی وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے اور بیماری سے بچنے کے لیے چین کی بیشتر کمپنیوں نے ملازمین کو باہر نکلنے کے بجائے گھروں میں رہنے کے لیے کہا ہے، جس سے چین کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو ‘کووڈ 19’ کا نام دیا ہے، جس کا اعلان ایجنسی کے سربراہ گیبریئس نے کیا۔ انہھوں نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا، ’’ ’کے‘ کورونا کے لیے، ’وی‘ وائرس کے لیے، ’ڈی‘ ڈزیز کے لیے اور 19 سن 2019 کے لیے، کیونکہ اس وائرس کا پہلی بار دسمبر دو ہزار انیس میں ہی پتہ چلا تھا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او جیو پولیٹیکل، کسی جانور یا پھر گروپ سے وابستہ ناموں سےگریز کرتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کورونا وائرس جیسی وبا سے نمٹنے اور اس کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کے مقصد سے ایک کانفرنس کر رہا ہے، جس میں تقریباً چار سو طبی ماہرین شرکت کر رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں اس وبا کے ممکنہ علاج پر بھی بات چيت کی جائے گی۔
اس دوران چین میں وبائی امراض کے ماہر اور سینیئر طبی مشیر ژواگ نشان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ اس ماہ کے اختتام سے پہلے وبا اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میرے خیال سے اس وبا پر اپریل تک قابو پا لیا جائے گا۔‘‘