پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PPMA) ادوایات بنانے والی مقامی کمپنیوں کی تنظیم ہے جو اپنے ممبران کے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم رہتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت 640 سے زائد ادوایات بنانے والی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے اکثر PPMA کی ممبرز ہیں۔ فارما بیورو کے نام سے ایک اور ایسوسی ایشن بھی پاکستان میں کام کرتی ہے جو ان کمپنیوں پر مشتمل ہے جنہیں ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیاں کہا جاتا ہے۔ یوں PPMA اور فارما بیورو کے درمیان ایک بدیہی مقابلے کی فضا پائی جاتی ہے اور PPMA سے وابستہ کمپنیاں خود کو نیشنل فارما انڈسٹری کے طور پر بھی متعارف کرواتے ہیں۔ جہاں بہت سے معاملات پر ان دو ایسوسی ایشنز کا اختلاف رائے ہوتا ہے وہاں بعض معاملات پر یہ دونوں مشترکہ موقف بھی اپناتے ہیں۔ مثلاً ادوایات کی قیمتیوں کے بارے میں ان دونوں کا خیال ہے کہ حکومت کو ڈی ریگولیشن کی پالیسی اختیار کرنی چاہییے اور معدودے چند مالیکولز جو ضروری ادوایات سے وابستہ ہوں کو چھوڑ کر باقی تمام ادوایات کی قیمتوں کے تعین کا حق حکومت کے پاس نہیں ہونا چاہیئے۔ ایسی ادوایات کو ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول پر مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ پر چھوڑ کر حکومت کو عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کرنی چاہییے۔
مجھے ذاتی طور پر PPMA اور فارما بیورو کے اس موقف سے اختلاف ہے کہ ادوایات پر دیگر عام اشیاء والے قوانین اور اصولوں کا اطلاق نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اس سے مریضوں کے شدید استحصال کا بھی خطرہ ہے۔ پاکستان میں مارکیٹ کو ریگولیٹ رکھنے کے لیے اور مقابلے کی صحتمندانہ فضا کو یقینی بنانے کے لیے جو ادارے بنائے گئے وہ کسی طور پر اپنا کام نہیں کر پا رہے۔ مثلاً کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان مکمل طور پر بے بس اور غیر موثر ہے۔ ایسے میں یہ سمجھ کر ادوایات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے کہ مسابقت کی فضا سے قیمتیں کم ہوجائیں گی، کسی طور پر وقوع پذیر ہونے کی توقع نہیں ہے۔ ہمارے ہاں مسابقت کے بجائے Unfair trade practices کے بل بوتے پر باہمی گٹھ جوڑ، مارکیٹ کی ملی بھگت پر مبنی مصنوعی تقسیم، پرائس فکسیشن وغیرہ کی صورت میں کمپنیاں آپس میں مک مکا کرلیتی ہیں اور صارفین کا استحصال کرتی ہیں۔ سیمنٹ، شوگر اور دیگر انڈسٹریز میں یہ سب کچھ ہوتا آرہا ہے مگر کمپیٹیشن کمیشن عضو معطل بن کر رہ گیا ہے۔ ایسے میں PPMA اور فارما بیورو کی خواہش پر ادوایات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی جس کا خمیازہ غریب مریضوں کو بھگتنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ ہمارے ہاں خود کو نیشنل فارما انڈسٹری کہنے والی کمپنیوں میں سے اکثر مارکیٹنگ کے نام پر ڈاکٹرز کو اپنے مصنوعات کی تشہیر و تجویز کے لیے بھاری رشوتیں دینے کے سلسلے میں پہلے سے بدنام ہیں۔ اگر مارکیٹ کو ان کمپنیوں کے من پسند طریقے پر ڈی ریگولیٹ کردیا گیا تو ڈاکٹرز نے مارکیٹ میں دستیاب سستی ادوایات کے بجائے مہنگی ترین ادوایات لکھ کر مریضوں کا استحصال شروع کر دینا ہے۔ یہ مکروہ دھندہ اس وقت بھی عروج پر ہے مگر ڈی ریگولیشن کے بعد اس میں بہت تیزی آجائے گی۔ پرائس ڈی ریگولیشن ان ممالک میں ہوسکتی ہے جہاں مارکیٹ نارمل رہے، کمپنیاں مسابقت کے قواعد و ضوابط کا احترام کریں اور ڈاکٹرز کو ادوایات تجویز کرنے کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کا نہ صرف احساس ہو بلکہ کسی غلط پریکٹس کی سزاء بھی فوری طور پر لاگو کی جائے۔
شنید ہے کہ حکومت نے ادوایات کی قیمتوں کی نئی پالیسی تیار کر لی ہے جس میں ڈی ریگولیشن پالیسی کو متعارف کروانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ دس فیصد کیپنگ کی شرط کے ساتھ اگر ڈی ریگولیشن کی پالیسی کو لاگو کیا جائے گا تو بھی مریضوں کو فوری طور پر قیمتوں میں اضافے کا شدید جھٹکا لگے گا۔ یہ اضافہ اس اضافے کے علاوہ ہوگا جو ہم نے حالیہ مہینوں میں ہارڈ شپ کیسز یا موجودہ پرائس پالیسی کے تحت کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈی ریگولیشن کی پالیسی کے بارے میں ازسر نو غور کیا جائے اور اس کا اطلاق اس وقت تک روک دیا جائے جب تک مسابقت کے قوانین اور اداروں کے کردار کو پوری طرح فعال نہیں کیا جاتا۔ اس دوران حکومت اگر ادوایات ساز اداروں کو کچھ ریلیف اور مراعات دینا چاہتی ہے تو اس کے لیے ٹیکس اصلاحات، ٹیکس ریفنڈ، خام مال کی ایمپورٹ کے قوانین میں آسانیوں، ایکسپورٹ کے لیے مراعات وغیرہ کے آپشنز پر غور کیا جا سکتا ہے۔