اب تو ہر جگہ کورونا وائرس ہی موضوع بحث ہے۔ اس وائرس کی پاکستان آمد ہوچکی ہے اور اگر دیگر ممالک میں وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پہلا کیس منظرِعام پر آنے کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر اس وائرس کا پھیلاؤ شدت اختیار کرسکتا ہے۔
ایران میں 19 فروری کو پہلا کیس رپورٹ ہوا تھا لیکن11 مارچ کے آتے آتے وہاں وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد 354 تک پہنچ گئی جبکہ تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 9 ہزار سے تجاوز کرگئی تھی۔
اگر ایران میں محض 21 دنوں میں مریضوں کی تعداد ایک سے بڑھ کر 9 ہزار تک پہنچ چکی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وائرس کی منتقلی کی شرح نہایت بلند ہوسکتی ہے اور ہمیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔تحریر جاری ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران میں وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی کی ایک بڑی وجہ قم شہر میں اس کا پھوٹنا ہے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 2 کروڑ زائرین اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔
ایران سے چند دن پہلے 15 فروری کو اٹلی میں پہلا کیس سامنے آیا، اور وہاں 11 مارچ تک اطلاعات کے مطابق کورونا وائرس کے کیسوں کی تعداد 10 ہزار 149 جبکہ وائرس سے اموات کی تعداد 631 تک پہنچ گئی تھی۔
وائرس کے اس قدر تیزی سے پھیلاؤ کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے خود کو تسلی دے رہے ہیں کہ میڈیا نے خواہ مخوا وائرس پر شور مچایا ہوا ہے اور یہ عام نزلے کے وائرس سے زیادہ خطرناک نہیں مگر یہ دلجمعی بہت ہی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اٹلی اور دیگر متاثرہ ممالک کے ڈاکٹر خبردار کر رہے ہیں کہ وائرس پر خود کو تسلی دینے سے زیادہ گھبرانا بہتر ہے اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات کو ہرگز کمتر نہ سمجھا جائے۔
اس میں زیادہ فکر کی بات انفیکشن سے ہونے والی اموات کی تعداد نہیں بلکہ وائرس منتقلی کی رفتار ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ منتقلی تب بھی ہوسکتی ہے جب کسی فرد میں کسی قسم کی علامات ظاہر بھی نہیں ہوتیں یہی وجہ ہے کہ صرف حکومتی اقدامات کے ذریعے وائرس سے نمٹنا تقریباً ناممکن بن جاتا ہے۔
جو ممالک اس وائرس سے شدید متاثر ہیں وہاں کے ڈاکٹروں اور شعبہ صحت سے وابستہ افراد بار بار اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ وائرس سے لڑنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اپنی عادات بدلیں۔
انفرادی سطح پر جو اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں ان میں سب سے اہم ان افراد کا خود کو قرنطینہ میں رکھنا ہے جو ممکنہ طور پر وائرس کا شکار بن چکے ہیں۔ حکومتِ سندھ نے ایران سے واپس آنے والے 2 ہزار سے زائد افراد کی تفصیلات جمع کیں اور پھر طبّی علامات کی بنیاد پر ایک ہزار سے زائد افراد کا ٹیسٹ کرکے ایک قابلِ تعریف کام کیا ہے۔ انہی طبّی ٹیسٹوں کی بدولت ان لوگوں کے بارے میں علم ہوا جن کو یہ بیماری ہے اور چند ہی دنوں میں متاثرہ افراد کی تعداد 8 تک پہنچ گئی تھی۔ سیکڑوں کی تعداد میں افراد کو ان کے گھروں تک محدود رکھا گیا ہے جبکہ ڈپٹی کمشنر سے لے کر پولیس تک مقامی انتظامیہ ان افراد اور ان کے اہل خانہ سے متعلق مسلسل سرگرم ہے اور انہیں مشاہدے میں رکھا ہوا ہے۔
اچھا پھر دیگر صوبوں میں وائرس کے شکار افراد کی تفصیلات جمع کرنے کا کام کس تیزی سے ہو رہا ہے اس حوالے سے دیگر صوبائی حکومتوں کی جانب سے زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔
چین کی بات کریں تو وہاں چہرہ پہنچاننے والی ٹیکنالوجی کی مدد سے ان افراد کا بھی پتا لگالیا گیا جو لاک ڈاؤن ہونے سے پہلے تک ووہان چھوڑ کر جاچکے تھے۔ پھر ان میں سے زیادہ تر افراد کو ڈھونڈ کر انہیں قرنطینہ میں رکھ دیا گیا۔ ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجی یا نگرانی نظام موجود نہیں ہے لیکن جو افراد کورونا وائرس کی وبا کے شکار ملکوں کی سفری تاریخ رکھتے ہیں ان کی تفصیلات جمع کرنا تو ایک عام فہم بات ہے اور یہ کام صوبائی حکومتیں ہی انجام دے سکتی ہیں۔
اسکولوں کی بندش ایک انتہائی قدم ہے اور ممکن ہے ضروری بھی لیکن وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں شاید یہ اکلوتا اقدام زیادہ مددگار ثابت نہ ہو۔ اگر اسکول بند ہیں لیکن مالز، بازار، سنیما گھر، ریسٹورینٹ، کیفے، دفاتر اور شادی ہال کھلے ہوئے ہیں تو وائرس کی منتقلی پر شاید ہی ضابطہ لانا ممکن ہوپائے گا۔
اس وقت یہ یقین نہیں کہا جاسکتا کہ آیا ہمارے حالات اس نہج تک پہنچیں گے یا نہیں جہاں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے چین یا اٹلی کے طرز کا مکمل لاک ڈاؤن ضروری ہوجائے لیکن ماہرین کی ایک بڑی تعداد نے خبردار کیا ہے کہ اگر وبا ایک مخصوص حد سے بڑھ جائے تو یہی آخری آپشن رہ جاتا ہے۔
ہمیں اپنی چند سادہ سی عادتوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بار بار ہاتھوں کا دھونا ضروری ہے۔ ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک ایک کرکے رگڑ کر دھوئیں اور جوڑ کے اوپر بنی سلوٹوں کو کھینچ کر اچھی طرح صاف کی جائیں۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ دن میں صرف ایک بار ہاتھ دھوتے ہیں اور کئی جگہوں پر تو رفع حاجت کے بعد بھی ہاتھ نہیں دھویا جاتا لہٰذا اپنے اردگرد اس آگاہی کو پھیلانا ہماری اصل ذمہ داری ہے۔ اس عادت کی تلقین ہمارے معاشرے بالخصوص ایسی جگہوں پر کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا جہاں لوگوں کو ملازمت کے اوقات میں شاید پانی اور صابن تک کی بھی رسائی حاصل نہ ہو۔
فیس ماسک سے زیادہ فرق نہیں پڑتا بشرطیکہ انہیں مخصوص صورتحال میں استعمال کیا جا رہا ہو لہٰذا لوگوں کو دھڑا دھڑ ماسک خریدنے کی ضرورت نہیں۔ ماسک پہن کر شہر میں گھومنے کا مطلب یہ نہیں کہ اب آپ انفیکشن کی زد میں نہیں آسکتے۔ عالمی ادارہ صحت اور دیگر آزاد ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ انفیکشن کا شکار ہوں یا پھر وائرس کے شکار مریض کا خیال رکھ رہے ہوں تو ہی آپ کا ماسک پہننا ضروری ہے۔
اب ان تمام چیزوں کے بعد ہمیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔ فی الوقت رپورٹ شدہ کیسوں کی تعداد پریشان کن سطح پر تو نہیں ہے اور منظرِعام پر آنے والے زیادہ تر نئے مریض وہ ہیں جنہوں نے وائرس کی وبا کے شکار ملکوں کا سفر کیا تھا۔ لیکن اگر ہم اگلے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں جہاں براہِ راست مقامی سطح پر منتقلی کا عمل بڑھ جائے تو پھر ملک کے اندر اس وائرس کی شدید وبائی پھوٹ کا امکان بڑھ جائے گا۔
وزیرِاعظم کو پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے اور قوم سے خطاب کرنا چاہیے۔ خدماتِ عامہ کے پیغامات ترتیب دیے جائیں اور تمام ٹی چینلوں اور ریڈیو ذرائع میں تقسیم کیے جائیں۔ یہ دیکھ کر تھوڑا دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کورونا وائرس کے بارے اتنی سرگرمی سے خدماتِ عامہ کے پیغامات نہیں چلائے جا رہے ہیں جتنی سرگرمی کے ساتھ نامعقول ڈیم فنڈ کے لیے پیغامات چلائے جا رہے تھے۔
کورونا وائرس کی پھوٹ سے بچنے کا یہی وقت ہے۔ خطرہ سر پر ہے اس لیے عمل میں دیر یا خود کو جھوٹی تسلی دینا پورے ملک کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔