ٹیزر کسی تشہیری مہم کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ مارکیٹنگ کی زبان میں مصنوعات کی رونمائی سے پہلے ان کی تشہیر میں شدت یا ہائپ پیدا کرنے کو تجسس سے بھرپور مختصر ٹیزر لائے جاتے ہیں۔ مبالغے پر مبنی اس تکنیک کا بنیادی مقصد ہدف کے جذبات، احساسات، ضروریات یا تجسس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے سازگار ماحول تیار کرنا ہوتا ہے۔ جوں جوں تجسس بڑھتا ہے انسان انکشاف کے لیے جدوجہد بھی تیز کرتا ہے۔ فیمین ازم کی رواں لہر اور عورت مارچ کی تاریخ دیکھیں تو متنازع سلوگن ،للکارتے نعروں کا شور اور ذرائع ابلاغ کا کردار سب ایک لڑی میں پروئے دکھتے ہیں۔
سماجی اقدار کو للکاریں ، سماج کی دکھتی رگوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں، لوگوں کے جذبات میں ہیجان برپا کریں، ان کےاحساسات کے تار بجائیں، اس پر بار بار ضرب لگائیں تاآنکہ وہ برانگیختہ ہوکر چلائیں تو اقتدار کے ایوانوں سے دھتکارے ہوئے سیاسی ہرکارے، خبر کو دن رات سونگھتے مشاق صحافی، سسٹم کو للکارتے نوزائیدہ سیاسی ، سماجی پریشرگروپ سب یکا یک حرکت میں آ جائیں اور سب کا مقصد ایک ہی ہو۔۔ شہرت کا حصول!
عورت مارچ گزر گیا۔ مگر ایک لا متناہی بحث کا سلسلہ ہے جو تھمتا نہیں۔ یہ بحث نئی نہیں ، سالوں سے جاری ہے۔ عورت کے حقوق کی بحث، اس کے وجود کی بحث، اس کے کردار کی بحث۔ کردار پر اعتبار کی بحث۔ عورت کے غیر فعال، سماج کے مرکزی دھارے سے کٹے ہونے کا شکوہ، اس کی تمناؤں کا گلا گھوٹنے کا نالہ آتشیں اور ان سماجی ڈھانچوں پر عدم اطمینان کی بحث جو مردانہ بالادستی کو نافذ کرتے تھے۔ گویا ان میں سے کچھ بھی نیا نہیں۔
صنفی برابری میں پاکستان دنیا کے بدترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ "ورلڈ اکنامک فورم کے صنفی امتیاز کے اشاریے 2020” میں شامل 153 ممالک کی فہرست میں پاکستان 151 ویں نمبر پر ہے۔اس لحاظ سےپاکستان صرف دو ممالک عراق اور یمن سے بہتر ہے۔ تعلیم میں مردوں کی شرح خواندگی 72.5 فیصد جبکہ عورتوں کی شرح خواندگی صرف 51.8 فیصد ہے۔ پاکستان میں ہر برس تقریبا ایک ہزار عورتیں قتل ہوتی ہیں۔ دنیا میں قتل ہونے والی ہر سو میں سے 20 عورتوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔
گھریلو تشدد، جبری شادیاں اور تیزاب گردی جیسے ان گنت مسائل پاکستانی معاشرے میں موجود گہرے صنفی امتیاز کا نمایاں اظہار ہیں ۔ جدید معاشروں میں اب بھی کمزور کا استحصال جاری ہے اور صنف نازک کمزور ہے۔ مختصر یہ کہ اگر معاشرہ مثالی ہو تو نہ کوئی مظلوم سڑکوں پر حقوق مانگے اور نہ ہی کسی کا آلہ کار بنے۔ یہ صدیوں سے چھائی گھٹن کا شاخسانہ ہے۔ ہمارے دانشور حقوق کی بحث کے ساتھ ہی مغرب کے ساتھ تقابل کی دلیل پیش کرتے ہیں۔مگر عورت کی تذلیل صرف مغرب پر موقوف نہیں۔ یہی زمینی حقائق ہیں۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کی بحث قیام پاکستان کے وقت سے جاری ہے۔ خواتین بانیان پاکستان نے قیام کے فورا بعد اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے” اپوا” کے نام سے حقوق نسواں کی تنظیم قائم کی۔ 73 سالوں میں حقوق نسواں کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے متعدد بار قانون سازی ہوئی۔ دو بار ایک خاتون ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئیں اور جب کہ ایک خاتون نے ملک کا پہلا صدارتی انتخاب بھی لڑا۔ مگر منزل ابھی دور ہے کے مصداق حقوق نسواں کی متعدد تنظیمں ریلیاں، احتجاج، مباحثے، منعقد کرتی رہیں۔ خواتین کی مختلف سیاسی، معاشی اور مرکزی سماجی دھاروں میں شرکت بھی پاکستانی معاشرے میں تبدیلی کے مثبت اشاریے ہیں۔
انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں فیمین ازم کی پہلی عالمی لہر خواتین کے بنیادی سیاسی اور جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے اٹھی، جبکہ دوسری لہر 1980-1960 میں قانونی اور معاشی حقوق کے ساتھ ساتھ جنسی تفریق کو یکسر مسترد کرتے ہوئے صنفی بنیادوں پر قائم امتیاز کے خاتمے کا مطالبہ پہلی بار سامنے آیا ۔ پاکستان میں بھی فیمینسٹ حلقے اس عالمی منظر نامے کی تبدیلی کے اثر کے ساتھ مقامی معاشرتی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے خواتین کے حقوق کےلیے جدوجہد کرتے رہے۔
آزادی نسواں میں تازہ ترین رجحان ریڈیکل فیمین ازم ہے۔ یہ نسبتا جارحانہ اور شدت پر مبنی نظریہ ہے جو سماجی ڈھانچے میں اکھاڑ پچھاڑ کے بعد مرد کی بالا دستی پر قائم پدرسری نظام کا خاتمہ کرکے مرد اور عورت کے کردار کی ازسر نو تشکیل کا خواہاں ہے۔ یہی رجحان پاکستان میں عورت آزادی مارچ پر غالب نظر آیا ۔ دنیا بھر میں حقوق نسواں کی تحریکوں کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا اس بنیادی سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کے خلاف اعلان جنگ کے باعث ہے۔ یہ ایک مصدقہ تاریخی حققیقت ہے کہ معاشرتی تبدیلی یکا یک نہیں بلکہ زمانوں میں وقوع پزیر ہوتی ہے۔ فیمینسٹ یہ مانتے ہیں کہ کوئی بھی نظام مادرسری ہو پدر سری ، کثیر زوجگی ہو یا یک زوجگی پر مبنی معاشرہ، ان سب کی بنیاد قدرتی نہیں سماجی ہے۔ سماج نے مخصوص حالات کے تحت عورت کو یہ کردار سونپے ہیں۔ مرد کی بالادستی پر قائم پدرسری معاشرہ عورت کی تکلیفوں کا باعث ہے اس لیے اس نظام سے چھٹکارا ضروری ہے۔ پدرسری نظام کے خاتمے کی پہلی سیڑھی چونکہ خاندان ہے تو خاندان کو ختم کرنے کے لیے اسے جوڑنے والا پہلا ضابطہ شادی غیر اہم قرار دیا جائے۔شادی کے نتیجے میں چونکہ اولاد پیدا ہوتی ہے جو مرد کی عورت پر معاشی و معاشرتی بالا دستی قائم رکھنے کے اہم عوامل میں سے ایک ہے اس لیے عورت کو شادی اور خاندان کے گھن چکر سے آزاد کرنے کے لیے تولیدی عمل اور عورت کے جسم پر صرف اور صرف عورت کا اختیار ہونا چاہیے تاکہ مرد اس کا استحصال نہ کرسکے۔
اس بار جمیعت علمائے اسلام (ف) اس مارچ کی مخالفت میں پیش پیش تھی۔ پاکستان میں عورت مارچ گو "ہم عورتیں” نامی کسی غیر معروف اتحاد کی کاوش تھی مگر مقتدر سیاسی جماعت تحریک انصاف کا ایک طبقہ اس مارچ کا حامی تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی اس مارچ کی حمایت کی۔ مارچ کو عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ تاہم پشتون تحفظ موومنٹ اور چند اشتراکی تنظیمں جو حالیہ چند برسوں میں پاکستانی سیاسی منظرنامے پر ابھری ہیں، عورت مارچ میں پیش پیش نظر آئیں۔
جس طرح ایک معتدل فیمینسٹ خواتین کی مردوں پر برتری کا نہیں برابری کا قائل ہے اسی طرح بہت سے لوگ جو لفظ "فیمین ازم” کی مخالفت کرتے ہیں، وہ حقوق کی فراہمی اور نا انصافی کے خاتمے پر متفق ہوتے ہوئے فیمین ازم کے تمام یا اکثر مقاصد کی حمایت کرتے نظر آئیں گے۔ خواتین کے حقوق کی سرخیل اور اصل مثالی کردار وہ عورتیں ہیں جنہوں نے تصادم سے نہیں اپنےطرزعمل سے اعلی اور کلیدی عہدوں پر پہنچ کر یہ جنگ جیتی ہے۔ نعرے صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور توجہ حاصل کرنے میں عورت مارچ نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ کامیابی صرف عورت مارچ کے حصے نہیں آئی بلکہ اقتدار سے بے دخل کئی سیاستدانوں نے بھی مارچ کی مخالفت یا حمایت کر کے اس سے کماحقہ فیض پالیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی لڑھکتی ناؤ کو بھی کچھ سہارا مل گیا۔ جب کہ عوام کے لیے تجویز ہے کہ اگلی بار اس سے بھی تندوتیز نعروں کی تیربارانی کا مقابلہ کرنے کی سکت پیدا کرلیں۔