انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز بین الاقوامی سطح پر وباءوں اور متعدی بیماریوں کی روک تھام کی کوششوں کو مربوط بنانے کے لیے تشکیل دی گئی ہیں۔ انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کی تاریخ 1851 میں جاری کردہ انٹرنیشنل سینیٹری ریگولیشنز سے جڑی ہوئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے قیام (1948) کے بعد انٹرنیشنل سینیٹری ریگولیشنز کو جدید خطوط میں ڈھال کر 1969 میں انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کے نام سے باقاعدہ جاری کیا گیا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ وبائی و متعدی امراض کی روک تھام کے بین الاقوامی قانون کی بنیاد یہ ریگولیشنز فراہم کرتی ہیں۔ ان ریگولیشنز کا اپ ڈیٹڈ ورژن 2005 کی انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز ہیں جو اس وقت متداول ہیں اور جن کی بنیاد پر عالمی ادارہ صحت مختلف ممالک کے ساتھ مل کر وبائی و متعدی امراض کے کنٹرول، تدارک اور اس سے وابستہ جملہ مسائل کے حل کی کوشش کرتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر صحت عامہ کی تشویشناک صورتحال پر مبنی ہنگامی حالت کو بھی انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ ہنگامی صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب:
1۔ ایسی سنجیدہ، فوری، غیر معمولی اور غیر متوقع صورتحال پیدا ہوجائے۔
2۔ جس کے صحت عامہ پر پڑنے والے اثرات کسی ایک متاثرہ ملک کی حدود تک محدود نہ رہیں اور
3۔ جس صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے فوری طور پر بین الاقوامی سطح پر ایکشن لینے کی ضرورت پڑ جائے۔
2007 سے اب تک اس قسم کی ہنگامی صورتحال کا اعلان عالمی ادارہ صحت کی طرف سے چھ مرتبہ کیا جا چکا ہے۔ ان میں H1N1 انفلوئنزا (2009)، پولیو کی ہنگامی صورتحال (2014)، ویسٹ افریقا ایبولا کیس (2014)، زیکا وائرس(2016)، کیوو ایبولا (2018) اور اب کرونا وائرس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی پیچیدہ صورتحال شامل ہیں۔
پاکستان میں وفاقی و صوبائی حکومتوں نے کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کئی حفاظتی اقدامات اٹھائے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو فوری طور پر بند کردیا گیا ہے اور بین الاقوامی پروازوں کو محدود کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں تشویش کی ایک لہر پورے ملک میں دوڑ جاتی ہے جس سے کئی طرح کی خرابیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ پاکستان کے اب تک اٹھائے گئے اقدامات انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کے مطابق ہیں اور اگر حالات قابو میں رہے تو ان شاء اللہ بتدریج یہ ہنگامی واپس لے لیے جائیں گے۔ اس وقت ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ:
1۔ تمام تر حفاظتی تدابیر کو اختیار کریں اور صفائی کا خاص طور پر اہتمام کرتے ہوئے اللہ سے حفاظت و عافیت طلب کریں۔
2۔ غیر ضروری نقل و حرکت سے گریز کریں اور بلاضرورت جسمانی انٹرایکشن سے ممکنہ حد تک گریز کیا جائے۔ ہمارے ملنے جلنے کے کلچر میں نہ صرف ہاتھ ملانا بلکہ گلے ملنا بھی عام ہے۔ اس انٹرایکشن کو محدود کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر بلاوجہ ناراض ہونے یا اسے خوف و ڈر پر محمول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب ہم عام طور پر زکام وغیرہ کا شکار ہوتے ہیں تو خود کو کچھ دنوں کے لیے محدود کرتے ہیں تاکہ اس کے منفی اثرات دوسروں پر نہ پڑیں۔ اسی جذبے کے تحت اب بھی حفاظتی تدابیر اختیار کریں۔
3۔ مارکیٹ میں ہینڈ سنیٹائزرز اور ماسک شارٹ ہو رہے ہیں۔ اس سے کسی پینک میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاتھوں کی صفائی کے لیے صابن کافی ہے اور ہر شخص کو ماسک کی فوری طور پر ضرورت نہیں ہے۔ سہولت سے یہ اشیاء میسر آجائیں تو استعمال کریں مگر نہ ملنے پر شور شرابے سے گریز کریں کہ ان اشیاء کی ترسیل بہرحال محدود ہے اور ہمارے منافع خور ذخیرہ اندوز اپنی جیبیں بھرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
4۔ حکومت نے اب تک کرونا وائرس کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ صحت عامہ کے لیے مختص وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب دکھائی دیتے ہیں۔ صحت کے لیے جتنا بجٹ ہم خرچ کرتے ہیں اس میں یہی کچھ ممکن ہے۔ یکایک بڑے اسپتالوں میں درجنوں یا سینکڑوں وینٹیلیٹرز کی سپلائی ممکن نہیں ہے جس کا ہر طرف شور کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ان بنیادی مسائل پر غور کریں کہ آخر ہم صحت عامہ کو بطور ریاست اپنی ترجیح کیوں نہیں بنا سکے۔
5۔ پوری دنیا میں کرونا وائرس کے علاج کے سلسلے میں تحقیقات پورے زور و شور سے جاری ہیں۔ یہ عمل جتنی بھی تیزی سے کیا جائے اس کا ایک لگا بندھا طریقہ کار ہے۔ لیبارٹریز میں کیے گئے تجربات کو کلینیکل ٹرائلز سے گذار کر ہی رجسٹریشن کی سطح پر لایا جاسکتا ہے۔ یہ سب فاسٹ ٹریک پر ہی کیا جا رہا ہے اور جونہی کوئی موثر ویکسین یا دوا سامنے آئے گی، اس کی فوری تیاری اور ترسیل کے بارے میں اسٹریٹجی بن جائے گی۔ اس لیے اطمنان سے متعلقہ لوگوں اور اداروں کو اپنا کام کرنے دیں۔
6۔ ہمارے ہاں ہر موقع پر سیاست کرنے اور اپنے مخالفین کو گرانے کی مذموم کوششوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ادھر کچھ دنوں سے چین کو ماسک سپلائی کرنے کے بارے میں میڈیا پر پروپگنڈہ جاری ہے۔ دو دن سے یہ خبریں چل رہی ہیں کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف ماسک چین بھیجنے کے بارے میں ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم کسی بھی قابل اور محنتی شخص کو کام کرنے کا موقع نہیں دیتے۔احباب واقف ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی پالیسیوں کا میں شدید ناقد رہا ہوں مگر میں اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر پوری دیانتداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر ظفر مرزا وزارت صحت کو چلانے کے لیے موزوں ترین افراد میں سرفہرست ہیں۔ وہ عالمی ادارہ صحت کی ایک بہترین ذمہ داری چھوڑ کر پاکستان آئے ہیں۔ ہم ان کے کئی کاموں سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر ایک ایسے وقت میں جب وہ اپنی ٹیم کے ساتھ ایک اہم محاذ پر سرگرم عمل ہیں۔
جھوٹے الزامات اور غیر مصدقہ معلومات کی بنیاد پر پروپگنڈہ کرنا کسی طور پر درست نہیں ہے۔ ٹی وی اینکرز کی کچی پکی معلومات کی بنیاد پر جھوٹ کو فروغ دینے سے کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ ماسک تو چلیں چین بھیج دیے گئے، سو شارٹ ہوگئے مگر یہ بتائیں کہ ہینڈ سنیٹائزرز مارکیٹ میں کیوں شارٹ ہیں؟ ظاہر ہے اس میں ڈیمانڈ اور سپلائی کے عوامل کے ساتھ ساتھ دیگر کئی پہلو بھی شامل ہیں۔
اللہ ہم سب کے ساتھ عافیت والا معاملہ فرمائے!