امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کورونا وائرس کو ’چینی‘ وائرس کہا تو چین نے سخت اعتراض کیا۔
چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکہ کو تنبیہ کی ہے کہ وہ چین کو گالی دینے سے پہلے ’اپنے کام پر دھیان دیں‘۔
کووڈ 19 کا پہلا کیس 2019 کے آخر میں چین کے شہر ووہان میں پایا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے چین کی وزارت خارجہ نے کورونا وائرس کو ایک سازش بتاتے ہوئے امریکی فوج پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اس وائرس کو اس کے علاقے میں لے کر آئے۔
اس پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ چین ’غلط خبریں‘ نہ پھیلائے۔‘
پوری دنیا میں اب تک کورونا وائرس کے ایک لاکھ ستر ہزار سے زیادہ متاثرین سامنے آ چکے ہیں جن میں اسی ہزار صرف چین کے ہیں۔
چین نے منگل کے روز کہا کہ اس کے یہاں صرف ایک نئے کورونا وائرس کیس کا پتا چلا ہے۔
ٹرمپ نے کیا کہا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز ٹویٹ کی تھی جس میں انہوں نے کووڈ 19کو ’چینی‘ وائرس کہا تھا۔
چین کے اعتراض کے باوجود امریکی صدر اسے ’چینی وائرس‘ کہہ رہے ہیں۔ اب سے تھوڑی دیر قبل کیے جانے والی ایک ٹویٹ میں انہوں نے پھر سے ’چینی وائرس‘ اصطلاح استعمال کی۔
اقوام متحدہ کے عالمی صحت کے ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ اس وائرس کو کسی خاص برادری یا علاقے سے جوڑ کر دیکھانا غلط ہے۔ متعدد امریکی اہلکار اسے ’چینی وائرس‘ کہہ رہے ہیں اور امریکی وزیر خارجہ پومپیو اسے کئی بار ’ووہان وائرس‘ کہہ چکے ہیں۔
کیا تھا رد عمل
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے ٹرمپ کے ٹویٹ کے بارے میں کہا کہ یہ چین پر الزام لگانے کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم امریکہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی غلطی سدھارے اور چین کے خلاف اپنے بے بنیاد الزامات کو روکے۔‘
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی زبان ’نسل پرستانہ‘ اور نفرت پھیلانے والی ہے اور اس سے کسی حکمران سیاستدان کی غیر ذمہ داری اور نا اہلی نظر آتی ہے اور یہ رویہ وائرس کے بارے میں خوف کو فروغ دینے والا ہے۔
ٹرمپ کی امریکہ میں بھی مذمت ہو رہی ہے۔ نیو یارک کے میئر بل ڈی بلاسیو نے ٹویٹ کر کے کہا کہ اس بیان کے ذریعے ایشیائی امریکی افراد کے خلاف ’تعصب‘ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
امریکہ الزامات عائد کرتا رہا ہے
کورونا وائرس کی شروعات کے بارے میں چین کی جانب سے نیا نظریہ پیش کیا جا رہا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ یہ ’امریکی مرض‘ ہے جو شاید اکتوبر میں امریکہ سے چین آنے والے امریکی فوجیوں سے پھیلا ہے۔
حالانکہ، اس نئی تھیوری کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گئے ہیں۔ امریکی فوجیوں پر کورونا وائرس سے متعلق الزام چین کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان چاؤ لژیان نے ٹویٹ کر کے لگایا ہے۔ کورونا وائرس کے بارے میں ماضی میں بھی بغیر شواہد کے کئی باتیں کہی جاتی رہی ہیں۔
اس سے قبل امریکی سینیٹر ٹام کاٹن نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ’ممکن ہے کہ کورونا وائرس چین کا حیاتیاتی ہتھیار ہو اور اسے ووہان کی لیب میں تیار کیا جا رہا ہو۔‘
کاٹن نے کہا تھا کہ ’ہمارے پاس اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ یہ مرض وہیں پیدا ہوا ہے۔ لیکن ابتدائی دنوں سے ہی چین کا جو رویہ رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہمیں صرف ایک ہی سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ثبوت کیا کہتے ہیں، اور چین اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں دے رہا ہے۔‘
حالانکہ بعد میں کاٹن اس بات سے متفق نظر نہیں آئے کہ کورونا وائرس چین کے حیاتاتی ہتھیار کے پھٹنے کی وجہ سے پھیلا ہے۔ لیکن یہ ان تمام کہانیوں میں سے ایک ہے جن کا واشنگٹن میں ذکر ہو رہا ہے۔
میڈیا میں ہوا حیاتاتی ہتھیار کا دعویٰ
بین الاقوامی میڈیا کی چند رپورٹوں میں کورونا وائرس کو چین کی حیاتیاتی ہتھیار بنانے کی کوشش کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ’دی ڈیلی میل‘ اور ’دی واشنگٹن ٹائمز‘ نے خبریں شائع کی ہیں کہ کورونا وائرس چین کے حیاتاتی جنگ کے پروگرام (بایو وارفیئر پروگرام) کا حصہ تھا۔
سٹیفن کیون بینن نے گزشتہ ماہ واشنگٹن ٹائمز کے رپورٹر بل گرٹز کو ایک ریڈیو شو ’وار روم: پینڈیمک‘ میں بطور مہمان بلایا تھا جس میں انہوں نے اس بات کے اشارے دیے کہ چین جنگ کے حیاتیاتی پروگرام کے تحت ایک وائرس بنا رہا تھا۔
بینن نے اس سے قبل ایسا ہی ایک اور شو کیا تھا جس میں سینیٹ میں مواخذے کے مقدمے میں صدر ٹرمپ کا دفاع کیا گیا تھا۔ اس شو کا نام ’وار روم: امپیچمینٹ‘ تھا۔
25 جنوری کو اپنے شو میں بینن نے کہا تھا کہ ’واشنگٹن ٹائمز میں بل گرٹز نے ایک شاندار آرٹیکل لکھا ہے جس میں ووہان میں بایولوجیکل لیب کا ذکر کیا گیا ہے۔‘
اس کے بعد ان کے کئی پروگرامز میں بل گرٹز نظر آئے اور حیاتاتی ہتھیاروں کے نظریے کو آگے بڑھایا۔
فاکس نیوز نے بھی اس تھیوری کا ذکر کیا اور اس تھیوری کو فروغ دینے کا کام کیا۔ ایک آرٹیکل میں فاکس نیوز نے 1980 کی دہائی میں لکھی جانے والی ایک کتاب کا ذکر کیا جس نے مبینہ طور پر کورونا وائرس کی پیش گوئی کی تھی۔
امریکہ اور چین کے تعلقات
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار ہے جو تجارتی جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جبکہ چین میں یہ تصور عام ہے کہ امریکہ اسے سب سے طاقتور عالمی معیشت بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دونوں تلخ تجارتی جنگ میں ملوث ہیں جس میں امریکہ اور چین نے اربوں ڈالر کی اشیاء پر ٹیرف لگا دیا ہے۔