ایرانی دارالحکومت تہران کی معتبر سمجھی جانے والی شریف یونیورسٹی کے محققین نے کمپیوٹر سیمیولیشن کی مدد سے ملک میں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے حوالے سے مختلف منظر نامے پیش کیے ہیں۔ ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر حکومت کورونا وائرس سے متاثرہ اور اس کے خطرے سے دوچار تمام علاقوں میں قرنطینہ کے ضوابط نافذ کر دے، عوام تمام حکومتی احکامات پر عمل کریں اور طبی سہولیات کی فراہمی میں بھی کوئی کمی نہ آئے، یعنی یہ تمام کام مثالی حد تک کامیابی سے کیے جائیں، تو ایک ہفتے کے اندر اندر ایران میں یہ وبا اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی اور اس کے نتیجے میں انسانی ہلاکتوں کی تعداد بارہ ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔
تاہم دوسری جانب یہ تمام اقدامات اور اندازے غیر حقیقی بھی ہیں کیونکہ حکومت ملک کے وسیع تر علاقوں کے لیے قرنطینہ کا نہ اعلان کرے گی اور نہ ہی اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عوام حکام کی ہدایات بھی نظر انداز کریں گے اور ملکی طبی شعبہ تو امریکی پابندیوں اور شدید بد انتظامی کے باعث پہلے ہی تباہی کا شکار ہے۔
معاملہ سنجیدہ ہے
ان تمام حقیقت پسندانہ مفروضوں کی بنیاد پر تہران کے ماہرین نے کچھ اس طرح کی پیش گوئی کی ہے، ”مئی کے آخر تک ایران میں کورونا وائرس کی یہ نئی قسم پوری طرح پھیل چکی ہو گی اور مرنے والوں کی تعداد پینتیس لاکھ تک ہو سکتی ہے۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار بھی حالات کی سنجیدگی کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اب تک سولہ ہزار افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے اور حکام کے مطابق کووڈ انیس نامی اس بیماری سے اب تک 988 سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اس طرح ایران اب کورونا وائرس کے سبب انسانی ہلاکتوں کے اعتبار سے پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ تاہم ہلاک ہونے والوں اور متاثرہ افراد کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ تعداد اس سے پانچ گنا زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
قبرستانوں کی توسیع
ایران میں کورونا وائرس کی اس نئی قسم کا آغاز قم شہر سے ہوا تھا۔ اٹھارہ فروری کو اس شہر میں کووڈ انیس کا پہلا مریض سامنے آیا تھا۔ حکام کی جانب سے اس شہر کے قبرستانوں میں توسیع کی جا رہی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بارہ مارچ کی اپنی اشاعت میں ایک سیٹلائٹ تصویر جاری کی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قم شہر کے مضافات میں واقع ایک قبرستان میں کس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور کئی فٹ بال اسٹیڈیمز کے رقبے کے برابر جگہ پر نئی قبریں بنائی یا کھودی گئی ہیں۔ خاص طور پر جنون کی حد تک مذہبی سوچ کے حامل حلقے اس صورت حال کی سنگینی کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ حکام کئی ہفتوں کی پس و پیش کے بعد فاطمہ معصومہ کا مزار بند کرنے میں کامیاب ہو سکے تھے۔
پورے تہران کو قرنطینہ میں رکھنا ‘غیر حقیقت پسندانہ‘
تہران میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یہ شہر حکومتی نااہلی کا منظر بھی پیش کر رہا ہے۔ اتوار کے روز ملک کے اعلٰی ترین مذہبی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے ملکی فوج کو حکم دیا کہ وہ صدر حسن روحانی کی ہدایات پر عمل کرے۔ کچھ دن قبل ہی خامنہ ای نے کمانڈر ان چیف کے طور پر خود ہی ایرانی فوج کو ہدایت دی تھی کہ وہ کووڈ انیس کے خلاف جنگ کی قیادت کرے۔
تاہم اس صورت حال میں یہ واضح نہیں ہو پا رہا کہ موجودہ حالات سے نمٹنے کی ذمہ داری کس کے پاس ہے؟ تہران کے میئر پیروز حناچی یہ اعتراف کر چکے ہیں، ”ہمارے پاس تہران کو قرنطینہ کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی قابلیت۔ ہم پابندیوں کی وجہ سے قرنطینہ میں شہریوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔‘‘
ادویات کی درآمد میں مشکلات
پچاس سالوں میں پہلی مرتبہ تہران حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرضے کی درخواست کی ہے۔ ایران نے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سے پانچ ارب ڈالر مانگے ہیں۔اگر تہران کو یہ رقم مل بھی جاتی ہے، تو اس کے باوجود حکومت کے لیے اشیاء کی خریداری کوئی آسان کام نہیں ہو گا کیونکہ امریکا کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باعث ایران کے لیے بین الاقوامی سطح پر مالیاتی لین دین اور ادویات سمیت اشیاء اور ساز و سامان کی درآمد آسان نہیں ہے۔