کورونا وائرس کی مقامی طور پر منتقلی کی خبروں کے ساتھ زیادہ تر پاکستانیوں نے ایک دوسرے سے ملنے کے وقت مصافحے کے بجائے آداب کہنے اور کہنی سے کہنی ملانے کا طریقہ اپنانا شروع کردیا ہے۔ تاہم وہ میل جول سے اب بھی باز نہیں آ رہے۔ اس تشویش کا اظہار کرنے والے ڈاکٹر فیصل محمود کہتے ہیں کہ ہر پاکستانی کے لیے سماجی میل جول محدود کرنا نہایت ضروری ہے۔
مگر بہت سے شہری عام دنوں کی طرح اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے پارکس اور جِم کلب تو یقیناً بند پڑے ہیں لیکن یہ اقدامات اس وبا سے بچنے کے لیے ناکافی ہیں اور چند لوگ اس خیال کا اظہار کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کا واحد مؤثر طریقہ کرفیو کا نفاذ اور جبری سماجی علیحدگی ہے۔
اٹلی سے کیا سبق ملتا ہے؟
شمالی اٹلی کے لمبارڈی نامی علاقے کے شہر مونزا کی رہائشی عالیہ صلاح الدین نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’وبائی پھیلاؤ کی ہم اچھی مثال ہیں اور ہم سے سبق بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 2 ہفتے پہلے تک اٹلی کے کچھ لوگ حکومت کی جانب سے دی گئی ’گھر پر رہنے‘ کی تجویز کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے، اور اب دیکھیے اس کا نتیجہ کیا ہوا‘۔
آج لمبارڈی کی صورتحال یہ ہے کہ وہ اٹلی میں سب سے بُری طرح متاثر ہونے والا علاقہ ہے، جہاں اموات کی تعداد 2 ہزار 500 سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ مثبت کیسوں کی تعداد 31 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ صرف کل کے دن ہی 345 اموات رپورٹ ہوئیں اور 9 مارچ سے پورے ملک کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔
اب چین سے باہر ریکارڈ ہونے والے تمام کیسوں میں نصف سے زائد کیس اٹلی میں موجود ہیں۔ جنوری میں جب چین میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی تب چین نے بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن اور برقی نگرانی کی مدد سے غیر معمولی اقدامات کیے اور وبا پر ضابطہ لانے میں کامیاب ہوگئے۔
مگر ہاں، یہاں ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اٹلی کو آبادیاتی گراوٹ کا سامنا ہے اور وہاں عمر رسیدہ افراد کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ 2019ء میں اٹلی کی 22.8 فیصد آبادی کی عمر 60 برس سے زائد تھی۔ وہاں موت کا شکار بننے والے ایک ہزار سے زائد افراد میں سے 90 فیصد کی عمر 70 برس یا اس سے زائد تھی۔ لوگوں کے زندہ نہ بچ پانے کی ایک بڑی وجہ سگریٹ نوشی کا رجحان بھی ہے کیونکہ اٹلی کے 24 فیصد عوام سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔
گزشتہ 7 برسوں سے اٹلی میں قیام پذیر 42 سالہ بزنس ٹرینر اور 5 سالہ بچے کی ماں عالیہ صلاح الدین کہتی ہیں کہ، ’اگر آپ مجھ سے مشورہ مانگیں گے تو میں یہی کہوں گی کہ وائرس سے خود کو محفوظ رکھنے کا سب سے بہترین طریقہ سماجی دُوری ہے‘۔ ریڈ زون میں رہائش اور وقفے وقفے سے ایمبولینس کے سائرنوں کی آواز سنتے رہنے کے باوجود وہ کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن سے انہیں یہ ’ذہنی سکون ملا ہے‘ کہ اس لاک ڈاؤن سے ’ہمارے ساتھ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا اور ہم محفوظ ہیں‘۔
اسی طرح روم سے تعلق رکھنے والی 20 سالہ پاکستانی طالبہ سارہ کاکل قریب 500 کلومیٹر دُور مقیم ہیں جو لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سے خود کو محفوظ تصور کررہی ہیں۔ مگر اپنے پرانے معمولاتِ زندگی کی آزادی کا ابتدائی احساس ایک ہفتے کے اندر ہی کافی حد تک گھٹ چکا ہے۔ انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ‘زیادہ کوفت غیریقینی کی صورتحال پر ہوتی ہے کیونکہ مجھے یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ کب تک مجھے اسی طرح محصور رہنا ہوگا اور یہ کہ میں اپنے گھر بھی نہیں لوٹ سکتی‘۔
لیکن اس کے باوجود وہ بھی عالیہ صلاح الدین کی طرح موجودہ صورتحال میں خود کو ’گھر پر‘ زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ اگرچہ ان کی زیادہ تر ہم کمرہ ساتھیوں کے اپنے اپنے گھر چلے جانے سے وہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگی ہیں مگر ان کے مطابق روز شام کو ایک مخصوص وقت پر علاقے کے لوگ اپنی اپنی بالکونیوں میں آتے ہیں اور گیت گاتے ہیں، جس سے یہ تسلی ملتی ہے کہ ان مشکل حالات میں ہم سب ساتھ ہیں۔
سارہ کاکل جس نظارے پر ناقابلِ یقین حد تک حیران ہوتی ہیں وہ روم کی خالی سنسان سڑکیں ہیں۔ انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ’چاہے سال کا کوئی بھی وقت ہو، روم میں ہر وقت سیاحوں کا رش لگا رہتا تھا‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ روم کے وہ نظارے انہیں بہت یاد آتے ہیں۔
عالیہ صلاح الدین نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ’ہمیں کہا گیا ہے کہ گھبرانے یا خوف پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ سب کچھ کنٹرول میں ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں اس وقت گھبرانا چاہیے تھا اور پھر آگے چل کر جب اموات میں اضافہ ہوا اس کے بعد ہی لوگوں میں گھبراہٹ کی لہر دوڑی۔ پاکستان تھوڑی بہت گھبراہٹ کے ساتھ شاید حالات سے نمٹنے کا اچھا بندوبست کرلے‘۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ لوگوں کو جبری طور پر محصور رکھ کر وائرس کے پھیلاؤ سے بچا جاسکتا ہے۔
’آج یہاں کوئی بھی شخص فارم کے بغیر گھر سے باہر قدم رکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ مقامیوں کو سودے سلف کی خریداری، صحت سے متعلق شکایات یا بینک جانے جیسی گھر سے باہر نکلنے کی وجوہات بتانے کے لیے یہ فارم پُر کرنا ہوتا ہے۔ لوگوں کو ان احکامات کی خلاف ورزی کرنے پر سزائیں بھی دی جاچکی ہیں۔‘
پاکستانیوں کو اب اپنی فکر کرنی ہوگی
پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے لہٰذا اب اس مسئلے کو معمولی قرار دینے اور خود کو تسلیاں دینے کے بجائے اس پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گھبراہٹ کی گھنٹی بج چکی ہے۔
حکومت نے ابتدائی طور پر اسکولوں کو بند کروایا اس کے بعد کرکٹ شائقین کو اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے سے روکا اور پھر عوامی میل جول پر پابندی کا آغاز کیا۔ بعدازاں مزارات اور شادی ہال کو بند کروایا گیا اور چند مذہبی اجتماعات سمیت بڑے بڑے عوامی اجتماعات کے انعقاد پر بندش عائد کردی گئی۔ اب فی الحال سندھ میں مالز، خریداری کے مراکز، ریسٹورینٹس، کیفے، عوامی پارکوں اور ساحلِ سمندر کو بند کروایا جا رہا ہے۔
اگرچہ عالمی اعداد و شمار کے مطابق اس وائرس کے سبب عمر رسیدہ اور ناتواں افراد سب سے زیادہ موت شکار بنے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ نوجوان افراد احتیاط کا دامن چھوڑ دیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ ایک ایسے وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بن سکتے ہیں جس کے بعض کیسوں میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔
جب ڈاکٹر محمود سے پوچھا گیا کہ آیا نوجوان پاکستانیوں کو وائرس کی زد میں آنے پر تشویش ہونی چاہیے، تو انہوں نے جواب دیا کہ ’نوجوانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عمر رسیدہ والدین کو اپنی وجہ سے بیمار ہونے نہ دیں اور نہ ہی کسی دوسرے شخص میں وائرس کی منتقلی کا باعث بنیں‘۔
’نوجوانوں سمیت ہر ایک کو اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ہم سب کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اکیلی حکومت اس وائرس کے پھیلاؤ پر ضابطہ نہیں لاسکتی۔‘
مگر عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل تھیڈورس اڈہینم گیبریسس کہتے ہیں کہ صرف سماجی دُوری سے مدد نہیں ملے گی جبکہ انہوں نے ٹیسٹ کروانے پر بھی زور دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر ایک مشتبہ شخص کا ٹیسٹ کیا جائے۔
ان کے مطابق ’اگر ان کے ٹیسٹ مثبت آتے ہیں تو انہیں الگ کردیا جائے اور یہ پتا لگانے کی کوشش کی جائے کہ علامات ظاہر ہونے کے 2 دن بعد وہ کن لوگوں کے قریب رہے اور پھر ان سب لوگوں کا ٹیسٹ کروایا جائے‘۔
اٹلی میں بیماری کے بے قابو ہونے کا الزام بروقت ٹیسٹ میں کوتاہی کو دیا جا رہا ہے۔ مگر پاکستان میں ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی لیبارٹریوں کی تعداد محدود ہے لہٰذا شعبہ صحت سے وابستہ افراد لوگوں پر زور دے رہے ہیں کہ بے وجہ ٹیسٹ نہ کروائیں۔
ڈاکٹر محمد کہتے ہیں کہ، ’ہمارے پاس زیادہ ٹیسٹ کٹس موجود نہیں ہیں اور شعبہ صحت کے محدود عملے کے ساتھ ہر ایک کا ٹیسٹ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہم وقتاً فوقتاً تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ علامات کی ایک مخصوص تعریف مرتب دیتے ہیں جس سے یہ طے پایا جاتا ہے کہ کس شخص کو ٹیسٹ کروانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنا ذہن تبدیل کر رہے ہیں بلکہ اس مسئلے سے نمٹنے کے نئے طریقے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر بشریٰ جمیل کو ڈر ہے کہ پاکستان میں ہسپتال مریضوں سے بھر جائیں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’چین کے سوا دنیا کا کوئی بھی ملک اس پر ضابطہ لانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے اور چین کو اس عمل میں زبردست مشکلات سے بھی گزرنا پڑا تھا‘۔
وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ، ’اگر وسائل دستیاب بھی ہوں تو بھی وبا کے تیزی سے ممکنہ پھیلاؤ پر صرف حکومتی اقدامات سے ضابطہ نہیں لایا جاسکتا‘۔
ایران نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے ریاستی ہدایات پر عمل نہیں کیا تو ملک کا پہلے سے کمزور نظامِ صحت گرسکتا ہے۔ یورپ میں شعبہ صحت کے حکام طبّی ضروریات کی چیزوں کی شدید قلت کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ دنیا کے دیگر حصوں کے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم اپنی اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی صحت کو بحال رکھنے کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔