اموی خلیفہ الولید بن یزید نے پہلا قرنطینہ بنایا تھا. جس نے صدیوں تک متعدی امراض میں مبتلا انسانیت کو اپنی آغوش میں لیکر موت کا لقمہ بننے سے بچالیا ۔
جب سے کورونا وائرس نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے بہت سے ممالک میں متاثرہ یا مشتبہ مریضوں کو مرض کے پھیلائو کے خطرے کو روکنے کے لیے قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے ۔۔
جس کے باعث میڈیا پر قرنطینہ کا لفظ بہت زیادہ سننے اور پڑھنے میں آرہا ہے۔ ۔بہت سے افراد اسے کسی علاقے کا نام خیال کررہے ہیں جبکہ اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان میں اس عمل پر بھی بعض لوگوں کو اعتراض اورتشویش ہے اوراسے اسلامی تعلیمات سے متصادم عمل خیال کررہے ہیں ۔ایسا مگر نہیں ہے ۔۔۔ آپ جانتے ہوں گے کہ قرنطینہ کا اولین تصور اسلام نے دیا ہے ۔۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں وبا سے متاثر بستیوں میں داخل ہونے یا وہاں کے باشندوں کو باہر نکلنے سے گریز کرنے کی واضح ہدایت موجود ہے جو قرنطینہ کی پہلی مبادیات ہے۔
قرنطینہ اطالوی زبان کا لفظ ہے quaranta giorni جس کے معنی چالیس دن کے ہیں ۔
لاطینی میں اسے quarantine کہا گیا ۔۔
اگرچہ یہ لفظ قرنطینہ معرب ہے لیکن آج کل کے عرب اس لفظ کو نہیں جانتے ۔۔ جدید اعلامی عربی میں قرنطینہ کے لیے الحجر الصحی (بفتح الجیم وسکون الجیم ) کی مصطلح مستعمل ہے ۔۔
قرنطینہ کے تصور پر عمل خلیفہ ثانی حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا جب انہوں نے شام کا سفر سرغ نامی علاقے میں ترک کرنے کا ارادہ کرکے واپسی کا فیصلہ کرلیا۔ قرنطینہ کو حکومت کی جانب سے عوام پر لازمی قراردینے کا پہلا کریڈٹ مشہور اموی خلیفہ الولید بن یزید (706. 707) کے سر ہے۔ جذام کی وبا پھیلنے کے بعد اموی خلیفہ نے دمشق میں ہسپتال بنایا جس میں پہلا قرنطینہ بھی بنا یاگیا جہاں جذاب کے مریض کو رکھا جانے لگا۔ ان کے علاج کے لیے وقت کے ماہر ڈاکٹرز (اطبا) کی خدمات لی گئیں۔ خلیفہ نے تمام متاثرین کو وظائف بھی جاری کروائے اورانہیں مکمل طورپر بغیر کسی خرچے کے مفت میں علاج معالجہ اورکھانے پینے کی تمام سہولیات فراہم کیں۔
الحجر الصحی مغرب کو بے حد پسند آگیا ۔۔ لیکن مغرب نے کئی صدیاں بعد یعنی 1377 میں کروشیا کے شہر دوبرونیک میں پہلا قرنطینہ بنایا۔۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چین سے شروع ہونے والی طاعون کی وبا بحری جہازوں کے ذریعے سے یورپ کے ساحلی شہروں میں پہنچ گئی ۔۔ اس وبا نے 1347 تا 1350 کے دوران یورپ کے 30 فیصد باشندوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔کروشیا کے شہر دوبرونیک کی اٹلی سے قربت کے سبب اطالوی سینیٹ نے قرنطینہ کے قیام کافیصلہ کیا جس کے تحت اٹلی کے ساحل جانے والے تمام بحری جہازوں کو سمندر کے اندر چالیس روز تک انتظار کرنے کا پابند کیاگیا ۔۔کیونکہ اس وقت کے ڈاکٹرز نے مرض کے آغاز سے موت تک کے لیے 37 روز کا دورانیہ بتایا تھا۔ جس کے لیے اٹلی نے quaranta giorni یعنی چلہ کی اصطلاح رائج کردی۔
مغرب کے تیز ترین نشریاتی اداروں نے اسے اپنے طبی قاموس کا حصہ بنا لیا۔ جبکہ الحجر الصحی کے موجد ہونے کے باوجود وقت کی دھول میں گمگشتہ مسلمان اپنی اس قیمتی پونجی سے بے خبر ہوتے چلے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جگہ جگہ قرنطینہ سے لوگوں کے فرار ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں، جبکہ بعض افراد اسے شرعی نقطہ نگاہ سے غلط خیال کرکے اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ حالانکہ آج کے مسلمان کو فخر ہونا چاہیے کہ انسانیت کے بچاؤ کے لیے سب سے اہم ٹھکانہ قرنطینہ ہے ۔۔ اپنی تاریخ پر نازاں ملک کے تمام دینی مدارس کے منتظمین کو بھی اپنے ہاں الحجر الصحی کے قیام کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ انسانیت کے بچاؤ میں ان کا بھی حصہ شامل ہو۔