ایران کو دنیا میں کورونا وائرس کی سب سے بڑی وبائی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے بھی خدشات موجود ہیں کہ حکومت اس وائرس کی حقیقی شدت کو گھٹا کر پیش کر رہی ہے اور صورتحال تیزی سے مزید خراب ہو سکتی ہے۔
کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے اب تک محمد اپنے مریضوں کی جانیں بچانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
شمالی صوبے گیلان میں کام کرنے والے ڈاکٹر محمد نے 14 دنوں سے اپنے خاندان سے ملاقات نہیں کی ہے۔ انھوں نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو کورونا وائرس کے ہاتھوں گنوایا ہے۔ میڈیکل سکول میں ان کے ایک سابق استاد بھی کورونا وائرس کا نشانہ بن کر ہلاک ہوچکے ہیں۔
محمد کہتے ہیں کہ ’یہ صرف ہمارا ہسپتال نہیں ہے، بلکہ کورونا وائرس نے ہمارے پورے طبی نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔‘
’ہمارے سٹاف کا مورال گر چکا ہے۔ ہمارے خاندان شدید فکرمند ہیں اور ہم پر بے پناہ دباؤ ہے۔‘
محمد کا نام بدل دیا گیا ہے کیونکہ ایران میں حکومت کے خلاف بات کرنے پر گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، مگر ملک کے شمالی صوبوں سے کئی ڈاکٹروں نے بی بی سی سے ان ناگفتہ بہ حالات کے بارے میں بات کی جن کا انھیں سامنا ہے، اور اس بارے میں بھی کہ حکومت نے کس برے طریقے سے اس بحران سے نمٹا ہے۔
محمد کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس کافی تعداد میں ماسک تک نہیں ہیں۔ ہمارا طبی عملہ روزانہ کی بنیاد پر مر رہا ہے۔
’مجھے نہیں معلوم کہ کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں مگر حکومت اس بحران کی حقیقی شدت کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے اس وبا کے ابتدائی دنوں میں جھوٹ بولا تھا۔‘
صرف 16 دنوں کے اندر ایران کے تمام 31 صوبوں میں کووِڈ-19 پھیل چکا تھا۔ اس کے علاوہ 16 ممالک کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایسے کیسز ہیں جن کا تعلق ایران سے ہے۔ ان ممالک میں ایران، افغانستان، بحرین، کویت، عُمان، لبنان، متحدہ عرب امارات، کینیڈا، پاکستان، جورجیا، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ، بیلاروس، آذربائیجان، قطر اور آرمینیا شامل ہیں۔
لیکن حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت وبا کو گھٹا کر پیش کر رہی ہے۔
گذشتہ ماہ فروری کی 19 تاریخ کو حکومت نے لوگوں سے کہا کہ وہ وائرس کے بارے میں فکرمند نہ ہوں۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایران کے ’دشمنوں‘ پر الزام عائد کیا کہ وہ خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔
ایک ہفتے بعد جب کیسز اور اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا تو صدر حسن روحانی بھی رہبرِ اعلیٰ کا مؤقف اپناتے ہوئے دیکھے گئے۔ انھوں نے ’دشمنوں کی تمام سازشوں اور ڈراووں‘ سے خبردار کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ سب ملک کو روک دینے کے لیے کیا جا رہا ہے اور ایرانیوں پر زور دیا کہ وہ اپنے روز مرّہ کے کام جاری رکھیں اور کام پر جاتے رہیں۔
حال ہی میں ریاست کے زیرِ کنٹرول ٹی وی پروگرامز میں اعلان کیا گیا کہ کورونا وائرس ممکنہ طور پر ’امریکہ میں تیار کیا گیا حیاتیاتی ہتھیار‘ ہو سکتا ہے۔ رہبرِ اعلیٰ نے بھی ’حیاتیاتی حملے‘ کے بارے میں ٹویٹ کی۔
ایرانی وزارتِ صحت کے مطابق 19 مارچ تک کووِڈ-19 کے 17 ہزار 361 کیسز تھے جبکہ اموات کی تعداد فی الوقت 1135 تک پہنچ چکی ہے۔
چین اور اٹلی کے بعد ایران اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا تیسرا ملک ہے۔
سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تین صوبوں گیلان، گلستان اور مازندران سے ڈاکٹروں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ بہت ہی کم تعداد میں کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ کٹس موجود ہیں جبکہ طبی سامان مثلاً بنیادی دوائیں، آکسیجن ٹینک، سٹرلائز شدہ ماسک اور دستانوں کی بہت کمی ہے۔
اب ڈاکٹروں کو عارضی ہسپتال تیار کرنے پڑ رہے ہیں۔ ایک انتہائی نگہداشت کے ڈاکٹر نے بتایا کہ کیسے ان کے مقامی فٹ بال سٹیڈیم میں بستر لگائے جا رہے ہیں تاکہ مریضوں کی بڑی تعداد سے نمٹا جا سکے۔
بی بی سی نے جس بھی ڈاکٹر سے بات کی انھوں نے بتایا کہ ان کے تجربے کے مطابق سرکاری اعداد و شمار حقائق سے بہت کم ہیں۔
گلستان صوبے سے تعلق رکھنے والی ایک شعبہ حادثات کی ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے ہسپتال میں روزانہ تقریباً 300 مریض آ رہے ہیں۔
ان کا اندازہ ہے کہ ان میں سے 60 سے 70 فیصد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہیں مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے صرف نازک حالت والے مریضوں کو ہی داخل کیا جا رہا ہے۔
اور سرکاری اعداد و شمار میں صرف ان مریضوں کو ہی گنا جا رہا ہے جنھیں ہسپتال میں داخل کیا جائے۔
وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح انھوں نے گذشتہ دو ہفتوں کے اندر اوسطاً روز پانچ مریض ہلاک ہوتے ہوئے دیکھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر ایسا ہوتا کہ جب تک کوئی کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ کٹ لے کر آتا، ان کا مریض تب تک ہلاک ہوچکا ہوتا۔
طبی عملے کے لیے اور زیادہ صدمہ انگیز بات ان کے اپنوں کی ہلاکت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے حال ہی میں اپنے کئی ساتھی گنوائے ہیں۔
ایک دل شکن کیس 25 سالہ نرجس خان علیزادہ کا تھا۔ نرجس لاھیجان کے شمالی صوبے کی ایک نرس تھیں جو فروری کے اواخر میں وائرس سے ہلاک ہوئیں۔
سوشل میڈیا پر ان کی ایک تصویر وائرل ہوئی مگر حکومت نے ان کے کووِڈ-19 سے ہلاک ہونے کی تردید کی ہے۔ .
سرکاری ٹی وی چینلز ڈاکٹروں کا ایسا تشخص پیش کرتے رہے کہ وہ بے خوف ہیں، اور تندہی و بہادری سے وائرس سے جنگ لڑتے ہوئے اپنے مریضوں کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
مگر ان کی ہلاکت کے کچھ ہی دیر بعد ایرانی نرسنگ آرگنائزیشن نے تصدیق کی کہ نرجس کی ہلاک کورونا وائرس سے ہوئی تھی۔
وائرس اتنی تیزی سے کیسے پھیلا؟
حکومت کے مطابق ’پیشنٹ زیرو‘ یعنی وائرس کے ریکارڈ کیے گئے اولین کیسز کی تعداد دو تھی اور دونوں ہی 19 فروری کو قُم میں ہلاک ہوئے۔ حکام نے بتایا کہ ان میں سے ایک بزنس مین تھے جنھیں چین سے یہ مرض لاحق ہوا تھا۔
اس کے بعد قُم فوراً ہی وبا کا مرکز بن گیا۔
یہ شہر شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک اہم زیارت ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ملک کے صفِ اول کے اسلامی علما بھی رہتے ہیں اور ہر سال تقریباً دو کروڑ ملکی اور 25 لاکھ غیر ملکی سیاح یہاں آتے ہیں۔
ہر ہفتے ہزاروں زائرین اس شہر کی گلیوں میں چلتے ہوئے متعدد مزارات اور یادگاروں کو چومتے اور چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جلد ہی وائرس تیزی سے پھیلنے لگا اور کیسز کی تعداد بڑھنے لگی۔ مگر شہر کو فوراً ہی قرنطینے میں ڈالنے کے بجائے رہبرِ اعلیٰ کے نمائندگان مثلاً محمد سعیدی نے زائرین کا آنا جاری رکھنے کے لیے مہم چلائی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس مقدس مزار کو شفا کا مرکز سمجھتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو روحانی اور جسمانی بیماریوں سے شفایابی کے لیے یہاں آنا چاہیے۔‘
حال ہی میں قُم سے واپس آنے والے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ایمرجنسی آپریشنز رچرڈ برینن نے کہا: ’قُم کی خاص مذہبی حیثیت اور ہر سال ایران اور ملک سے باہر مذہبی سیاحوں کے یہاں آنے کی وجہ سے وائرس تیزی سے پھیلا۔‘
انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنے دورے میں قُم اور دارالحکومت تہران میں ٹیسٹنگ لیبارٹریوں اور ہسپتالوں کی استعداد میں اضافے کی ’مخلصانہ کوششیں‘ دیکھیں۔
اب شہر کے مزارات بند کر دیے گئے ہیں۔
کیا حکومت نے وبا پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی؟
فروری میں ملک میں دو اہم مواقع تھے۔ ایک تو پارلیمانی انتخابات اور دوسرا اسلامی انقلاب کی 41 ویں سالگرہ۔
ایک سینیئر ڈاکٹر نے بتایا کہ: ’یہ 11 فروری کو اسلامی انقلاب کے یومِ فتح سے چند دن پہلے کی ہی بات ہے جب میں نے اور میرے ساتھیوں نے سانس کی ایک غیر معمولی بیماری کو ریکارڈ کیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ہسپتال سے تہران میں سینیئر وزرائے صحت کو کئی رپورٹس بھیجیں اور وبا کے پھوٹنے سے خبردار کیا۔
’ان کا ماننا ہے کہ طبی حکام نے کورونا وائرس کے ایران پہنچنے کو اس لیے چھپانے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنی معمول کی ریاستی تقریبات منعقد کر سکیں۔‘
ایرانیوں کے چھ ماہ تک پریشان کن صورتحال میں مبتلا رہنے کے بعد انقلاب کی سالگرہ اور انتخابات، دونوں کو ہی حکومت کی مقبولیت کے امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
ان میں نومبر میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہرے، ایران کے صفِ اول کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو امریکہ کی جانب سے ہلاک کیے جانے کے بعد ایران کی جانب سے عراق میں امریکی فوجی اڈے پر حملہ اور اس سے جنم لینے والا امریکہ ایران تناؤ شامل ہے۔
ایرانی حکام نے 176 لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنے والے یوکرینی طیارہ گرائے جانے کے بارے میں بھی ابتدا میں جھوٹ بولا جس کی وجہ سے عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔
انتخابات کے تھوڑا ہی بعد ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے ایران کے ’دشمنوں‘ پر الزام لگایا کہ انھوں نے لوگوں کو ووٹنگ سے باز رکھنے کے لیے کورونا وائرس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
خامنہ ای نے کہا کہ ’کئی ماہ قبل ہی منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا تھا اور گذشتہ دو دنوں سے ان کے میڈیا نے لوگوں کی ووٹنگ سے حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ہر موقع استعمال کیا ہے تاکہ لوگ بیماری اور وائرس کے بہانے سے ووٹ نہ ڈالیں۔‘
حال ہی میں ایران کے وزیرِ صحت سعید نمکی نے رپورٹس میں تاخیر کے تمام دعووں کو مسترد کیا ہے جبکہ سرکاری ٹی وی نے اعلان کیا کہ ’اس مسئلے کا اعلان فوراً [19 فروری] کو کر دیا گیا تھا باوجود اس کے کہ انتخابات اُس جمعے [21 فروری] کو ہونے تھے۔‘
انتخابات کے پانچ دن کے بعد حکومت کی جانب سے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 139 جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 19 ہوچکی تھی۔
اسی دن قُم سے تعلق رکھنے والے ایک سخت گیر رکنِ پارلیمان احمد امیرآبادی فراحانی پارلیمان میں اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ دو ہفتوں میں ان کے شہر میں 50 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
نائب وزیرِ صحت ایرج حریرچی نے فراحانی کے دعووں کی تردید کی اور کہا کہ اگر اموات کی تعداد اس سے نصف بھی ہوئی تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔
اسی دن بعد میں حریرچی کو کورونا وائرس پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پسینے میں شرابور اور کھانستے ہوئے دیکھا گیا۔ انھوں نے بعد میں اعلان کیا کہ ان کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور یوں وہ انفیکشن کے شکار ہونے والے کئی ایرانی سیاستدانوں میں سے ایک بن گئے۔
مبینہ طور پر تب سے اب تک حریرچی ’مکمل صحتیاب‘ ہوچکے ہیں اور 13 مارچ کو وہ ٹی وی پر لائیو بھی دکھائی دیے۔
کئی ماہرین اور صحافیوں کے خیال میں سرکاری اعداد و شمار بہت گمراہ کن ہیں اور یہ ایران میں صیحح تصویر کو پیش نہیں کر رہے ہیں۔ بی بی سی فارسی کی تحقیقات کے مطابق بھی ا یران میں ایک دن ہونے والی اموات سرکاری طور پر بتائی گئے اعدادوشمار سے چھ گنا زیادہ ہیں۔
اب جب کہ سرکاری اعدادوشمار میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے تو اب ایران کے سامنے بڑا سوال یہی ہے کہ اس وائرس کا راستہ کیسے روکا جائے۔
لاک ڈاؤن کی زندگی
علی رضا، فرضی نام، کے والد مارچ کے وسط میں اس وائرس سے ہلاک ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب ان کے والد کی تدفین ہوئی تو اس موقع پر وہاں کوئی بھی خاندان کا فرد موجود نہیں تھا۔ ان کے مطابق وہ خود بھی اپنے والد کی لاش نہیں دیکھ سکے۔ حکام نے انھیں بس اتنا بتایا کہ وہ مر گئے ہیں اور انھیں تہران کے مخصوص قبرستان میں دفنا دیا گیا ہے۔
حکام نے علی رضا کے خاندان والوں کو بتایا کہ وہ جنازے کے لیے جمع نہ ہوں۔ تاہم وہ تدفین کے بعد اپنے والد کی قبر پر جا سکیں گے۔
لیکن جب علی رضا کے خاندان کے افراد قبرستان پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ اب بھی قبر پر جانا خطرے سے خالی نہیں ہے کیونکہ حکام اب بھی بڑی تعداد میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کو دفنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے افراد ان کے والد کی موت سے زیادہ ان کی تدفین پر بات کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ میں کوئی مذہبی نہیں ہوں لیکن اب بھی یہ عجیب احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے اپنے والد کی ہتک کی۔
ایرانی حکام نے اب جنازوں کے لیے بڑے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔
ایران کے رہبر اعلیٰ سمیت کئی علما نے بھی کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو غسل نہ دینے سے متعلق فتویٰ دیا ہے تاکہ دیگر افراد کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
عالمی ادارہ صحت کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اور اہم نوعیت کے اقدامات اٹھانے پر زور دے رہا جبکہ اس وقت ایران ایسے اقدامات اٹھانے میں اٹلی اور چین سے پیچھے ہیں۔
ایران میں تعلیمی ادارے، مساجد اور مدارس بند کر دیے گئے۔ فٹ بال میچز منسوخ کر دیے گئے جبکہ تہران میں جراثیم کش صفائی مہم چلائی جا رہی ہے۔ حکام نے شہریوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ سفر نہ کریں اور زیادہ وقت گھروں پر ہی گزاریں۔ ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد پہلی بار جمعے کا خطبہ منسوخ کیا گیا ہے۔
جیل میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے 155،000 قیدیوں کو عارضی طور پر رہا کر دیا گیا ہے۔ ان میں سیاسی قیدی بھی شامل ہیں جن کی صحت اچھی نہیں تھی۔ ان میں سے ہی ایک خیراتی ادرہ چلانے والے ایرانی نژاد برطانوی نازانین ضغیر ریٹکلف شامل ہیں۔
ایران میں اب بھی زیادہ تر سرکاری عمارتیں، دفاتر اور بینک کھلے ہیں۔
چاہے پٹرول پمپ ہوں یا دیگر دکانیں، اوسط آمدن والے ایرانیوں کے لیے اب بھی بڑا مسئلہ کیش میں لین دین کا ہی ہے۔ ایسے ہی دو ریٹائرڈ ایرانی اسکول ٹیچر فاطمہ، فرضی نام، اور ان کے خاوند بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھیں بینک میں جاکر اپنی ماہانہ پینشن وصول کرنی ہوتی ہے۔ آئندہ دنوں میں ہم نئے ایرانی سال نوروز پر سپیشل الاؤنس ملنے کی توقع کرر ہے ہیں۔
ایران کے اندر اور باہر کئی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ایران شفاف اقدامات نہیں اٹھاتا اور قم جیسے شہروں کو قرنطینہ میں نہیں بدلتا تو یہ وائرس پورے ملک میں پھیل کر تباہی مچا سکتا ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت شہروں کو لاک ڈاؤن نہیں کرے گی اور تمام دکانیں اور کاروبار کھلے رہیں گے۔ اس فیصلے سے متعلق زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ ایران مکمل لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ ایرانی معیشیت امریکی پابندیوں سے پہلے ہی تباہ حالی کا شکار ہے۔
نیا فارسی سال ایک بڑا سالانہ میلا ہوتا ہے لیکن اب فاطمہ کا کہنا ہے کہ اس بار نہیں لگتا کہ وہ اسے منا سکیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں یاد میں کبھی نوروز پر تنہا گھر بیٹھی ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران بھی کبھی ایسا نہیں ہوا۔ فاطمہ کہتی ہیں کہ جب عراق کے سابق حکمران صدام حسین نے ایران کے شہروں پر میزائلوں سے حملہ آور ہوا تھا تو اس وقت بھی وہ نوروز منانے گھر سے باہر نکلے تھے اور اس دوران بھی ایک دوسرے کے گھروں پر جاکر ملتے رہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو