ایران کے رہبرِاعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے گذشتہ ہفتے ایک نشری تقریر میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ کرونا وائرس کی وَبا سے دنیا بھر میں دس لاکھ سے زیادہ ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔انھوں نے یہ دعویٰ اس حقیقت کے باوجود کیا تھا کہ تب تک بین الاقوامی تنظیمیں دنیا بھر میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد نوّے ہزار کے لگ بھگ بتارہی تھیں۔خامنہ ای نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ کرونا وائرس کا علاج سائنس اور ٹیکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کا علاج اہلِ تشعی کے بارھویں امام مسیح المہدی کے ظہور سے ہوسکتا ہے۔اہلِ تشیع کے عقیدہ کے مطابق امام المہدی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے ہیں۔وہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ قبل صرف پانچ سال کی عمر میں دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگئے تھے اور اب ان کا دوبارہ ظہور ہوگا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ خامنہ ای نے ایران اور دنیا میں اس مہلک وائرس کی وَبا سے متعلق اس طرح کا کوئی مضحکہ خیز بیان دیا ہے۔مارچ 2020ء کے آخر میں خامنہ ای نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ وائرس امریکا کا تیار کردہ ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے اور یہ ایران کو ہدف بنانے اور تباہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انسانوں اور جنوں پر مشتمل ایک لشکر امریکا کے مشن کی تکمیل کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔
اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے سادہ لوح اور توہم پرست ایرانیوں کو دھوکا دینے کے لیے تو ضرور کام آسکتے ہیں مگر اب خامنہ ای کی یہ مہم ایران کی سرحدوں سے باہر بھی پہنچ چکی ہے اور دنیا بھر میں اس کی تشہیر کی جارہی ہے۔امریکا اس کا خاص ہدف ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے یہ مہم ترتیب دی تھی اور نظام نواز ترجمانوں اور بھونپوؤں کے ذریعے اس کو امریکا میں بھی پھیلایا جارہا ہے۔اس کام میں واشنگٹن میں قائم قومی ایرانی امریکی کونسل ( این اے آئی سی ، نیاک) پیش پیش ہے اور یہ ایرانی نظام کے حق میں پروپیگنڈے کی تشہیر کے لیے مشہور ہے۔
امریکا کی ایرانی نظام کے خلاف عاید کردہ پابندیاں اس پروپیگنڈے کا مرکزی نکتہ ہیں۔ نظام نواز صحافی ،تجزیہ کار اور پالیسی ماہرین امریکا میں جواد ظریف کے الفاظ وکلمات کی جگالی میں مصروف ہیں۔وہ یہ کہہ رہے ہیں امریکا کی پابندیوں نے ایران میں کرونا وائرس کی وبا پھیلانے میں اہم کردارادا کیا ہے اور اب یہ پابندیاں اس مہلک وائرس سے نمٹنے میں بھی حائل ہورہی ہیں۔
اس تمام تر غوغا آرائی اور انتھک مہم کا اس کے سوا کوئی مقصد وہدف نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے ملّائی نظام کے خلاف عاید کردہ پابندیوں کو ختم کردے۔تاہم ایرانی نظام نے خود اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ مہم ایک مذموم کاوش تھی اور اس کا ایران میں کرونا وائرس کے بحران کے انتظام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔مارچ کے آخر میں ایرانی صدر حسن روحانی نے کابینہ کے اجلاس میں یہ بات کہی تھی کہ وزارت خارجہ نے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے ایک مربوط مہم برپا کی تھی تاکہ دوسرے ممالک میں ضبط شدہ ملکی دولت کو واپس لایا جاسکے۔
جواد ظریف بہ ذات خود سوشل میڈیا پر متحرک رہے ہیں اور اس مہم کی رہ نمائی کرتے رہے ہیں۔نظام نواز دماغ امریکی کانگریس کو برقی میلیں بھیج رہے ہیں اور بڑے پُرعزم انداز میں ایران کے حق میں لابی کررہے ہیں۔ایران میں ملّاؤں کی حامی امریکا کی قانون ساز ایوان نمایندگان کی رکن الہان عمر نے اس مہم کو کیپٹول ہِل میں پہنچانے میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے اور وہ بڑے مؤثر انداز میں کانگریس میں ایرانی نظام کی نمایندہ بن چکی ہیں۔وہ امریکی عوام اور اپنے حلقہ نیابت مینی پولیس کی صورت حال کو یکسر نظرانداز کرتی چلی آرہی ہیں کہ اس وقت انھیں اس وبا کا سامنا ہے لیکن وہ بڑی دل جمعی اور انتھک انداز میں سوشل میڈیا پر ایران کے خلاف پابندیوں کے مسئلے کو اجاگر کررہی ہیں اور ہر اس شخص کو ایرانی نظام کا دکھڑا سنا رہی ہیں جو یہ سننے پرآمادہ ہے۔الہان عمر کی کوششوں کا نقطہ عروج ان کا ایک خط تھا جس پر ان کے علاوہ کانگریس کے بیس، پچیس ترقی پسند ارکان نے دست خط ثبت کیے تھے۔ ان میں سینیٹر برنئی سینڈرز ، سینیٹر ایلزبتھ وارن اور سینیٹر ایڈورڈ مارکی بھی شامل ہیں۔
اس خط میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر خزانہ اسٹوین نوشین کو مخاطب کیا گیا ہے اوران سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایرانی نظام کے خلاف عاید کردہ پابندیوں کو کرونا وائرس کی وَبا کے پیش نظر نرم کیا جائے۔ مائیک پومپیو اور نوشین دونوں ہی کئی مرتبہ اپنے اس موقف کا اعادہ کرچکے ہیں کہ ایران کے لیے انسانی امداد پر امریکی پابندیاں عاید نہیں ہیں۔درحقیقت پومپیونے تو حال ہی میں یہ کہا تھا کہ محکمہ خارجہ کو ایران میں کرونا کی وبا پھیلنے کے ابتدائی ایام ہی میں پتا چل گیا تھا کہ اس ملک کو صحت کےبحران کا سامنا ہے اور اس نے مدد کی پیش کش کی تھی۔اسٹیون نوشین نے مارچ کے اوائل میں ایوان نمایندگان کی رکن باربرا لی کے اس موضوع پر سوال کے جواب میں یہ وضاحت کی تھی کہ ایرانی نظام کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھنے کی مہم میں انسانی امداد پر پابندی شامل نہیں ہے مگر ایرانی نظام نے امریکا کی جانب سے امداد کی کسی قسم کی پیش کش کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ اگر پابندیوں میں نرمی سے گریز کیا جاتا ہے تو اس طرح کی کسی قسم کی ’’ مضحکہ خیز‘‘ امداد کو قبول نہیں کیا جائے گا۔امریکا کے محکمہ خزانہ نے 27 فروری کو انسانی امداد کی بہم رسانی کے لیے ایران کے مرکزی بنک کے ساتھ رقوم کی ترسیل کی اجازت دے دی تھی۔
اس دوران میں ایرانی نظام نے طبی سامان اور آلات کی مختلف غیر پابند ذرائع سے خریداری جاری رکھی تھی۔ان میں سوئٹزرلینڈ کا قائم کردہ ایک چینل بھی شامل تھا۔اس نے جنوری 2020ء میں کامیابی سے ابتدائی ترسیلات کی تکمیل کرلی تھی۔جواد ظریف نے مارچ کے وسط میں بھی اس طرح کی ایک کوشش کی تھی اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے پانچ ارب ڈالر قرض کے طور پر حاصل کرنے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔آئی ایم ایف نے ان کی اس درخواست کو ہنوز قبول نہیں کیا ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کو یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔
اس سب کے باوجود امریکا میں نظام کے بھونپو نچلا نہیں بیٹھے۔نیاک کے صدر جمال عابدی نے آئی ایم ایف کو ایک خط لکھا اور اس میں یہ مطالبہ کیا کہ ایران کی قرضے کی درخواست کو منظور کیا جائے۔اس میں اس دعوے کی تردید کی گئی کہ ایرانی نظام ملنےوالی رقوم کو دہشت گردی یا اپنی اقتصادی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال میں لا سکتا ہے۔عابدی نے لکھا:’’آپ کے اداروں نے جو نظام وضع کیا ہے، وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ امداد اس کے حقیقی حق داروں تک پہنچے۔‘‘
یہ دعویٰ بہ ذات خود ہی مضحکہ خیز اور من گھڑت ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے آج تک تو کوئی ایسا نظام وضع نہیں کیا ہے جو بالخصوص اس بات کی نگرانی کرتا ہے کہ رقوم کو کیسے صرف کیا جاتا ہے۔نیاک کے صدر مزید لکھتے ہیں:’’ ہم آپ پر زوردیتے ہیں کہ ایرانی عوام کی مدد کی جائے جیسا کہ آپ نے ماضی میں کی ہے۔‘‘
انھوں نے یہ اشارہ دیاہے کہ آئی ایم ایف نے ماضی میں ایران کو قرضے دیے تھے۔یہ بھی ایک جھوٹا دعویٰ ہے کیونکہ ایران نے ماضی میں کبھی آئی ایم ایف سے قرض حاصل نہیں کیا تھا۔ایران کے سابق بادشاہ شاہ محمد رضا پہلوی نے ماضی میں کریڈٹ کے لیے درخواست ضرور دی تھی اور یہ 1960ء سے 1962ء تک فعال رہا تھا لیکن یہ کسی بھی طرح یا کسی بھی شکل میں کوئی قرض نہیں تھا۔اس عریضے کے آخر میں عابدی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ نیاک کے امریکا میں 65 ہزار حامی موجود ہیں لیکن ان کا یہ دعویٰ ماضی میں کئی مرتبہ افسانہ ثابت ہوچکا ہے۔
عابدی نے درخواست اپنے ان مزعومہ 65 ہزار ایرانی نژاد امریکی حامیوں کی جانب سے ایک اور خط کے جواب میں لکھی تھی۔یہ خط ایران سے تعلق رکھنے والے 53 کارکنان ، صحافیوں ، اسکالروں اور ماہرین تعلیم نے عالمی مالیاتی فنڈ کو لکھا تھا اور اس میں انھوں نے آئی ایم ایف سے یہ کہا تھا کہ ایرانی نظام کو نقد رقوم دینے کے بجائے ایرانی عوام کو طبی سامان اور آلات کی شکل میں امداد مہیا کی جائے۔ سوشل میڈیا پر ایک مرتب شدہ ویڈیو بھی پوسٹ کی گئی تھی اور اس میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ایرانیوں نے ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کیا تھا کہ ایرانی نظام کے خلاف عاید کردہ پابندیوں کو نرم نہ کیا جائے۔
ایران کا اسلامی نظام اس وقت نقد رقوم کی تلاش میں مارامارا پھر رہا ہے،اس کو ایران میں کووِڈ-19 سے نمٹنے کے لیے طبی آلات یا افرادی قوت کی ہرگز کوئی پروا نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ نظام دنیا کے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کی مانیٹرنگ کے سرکردہ گروپ مالیاتی ایکشن ٹاسک فورس کے ساتھ تعاون سے مسلسل انکار کرتا چلا آرہا ہے۔وہ امریکا سے انسانی امداد قبول کرنے سے انکاری ہے۔اس نے طبیبان ماورائے سرحد سے تعلق رکھنے والے رضاکار معالجین کو بے وقت ملک سے نکال باہر کیا ہے۔وہ تب اصفہان میں کرونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے 50 بستروں پر مشتمل ایک یونٹ قائم کرنے کی تیاری کررہے تھے جہاں ایک ہنگامی امدادی ٹیم مقرر کی جانا تھی۔یہ اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے مہیا کردہ طبی سامان کو منافع خوری کی غرض سے ذخیرہ کر لیا گیا ہے۔ بہت سے ایرانیوں نے یہ قیاس آرائی کی ہے اور ایرانی نظام پر الزام عاید کیا ہے کہ یہ اسی کی کارستانی ہے اور بالخصوص ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کا کیا دھرا ہے۔بعض غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے ایران کو بھیجے گئے دو کروڑ یورو مالیت کے انسانی امدادی پیکج کو فوری طور پر شام اور عراق کو روانہ کردیا گیا تھا اور اس میں سے ایک پائی کا سامان بھی ایران میں نہیں رکھا گیا تھا۔
خامنہ ای وائرس نے امریکا میں جن دوسرے سیاست دانوں کو متاثر کیا ہے،ان میں سینیٹر باب مینیڈیز اور ایوان نمایندگان کے رکن ایلیٹ اینجیل بھی شامل ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں ایک بیان جاری کیا ہے اور اس میں ایرانی نظام کے خلاف عاید کردہ پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔حتٰی کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے متوقع صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے بھی ایران کے خلاف عاید کردہ پابندیوں میں نرمی کا مطالبہ کیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ انھیں اس مطالبے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ان کی اپیل میں کوئی وزن نہیں تھا۔
ان میں سب سے دلچسپ کیس شاید سینیٹر کرس مرفی کا ہے۔ان صاحب نے فروری 2020ء میں جرمن شہر میونخ میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے ملاقات کی تھی۔ان دونوں کے درمیان کیا رازونیاز ہوا تھا،اس کی تفصیل تو ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے لیکن ایران میں نظام کے اخبارات میں مرفی کی خبریں صفحہ اوّل پر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی گئی تھیں اور انھیں امریکا کے ایک ایسے ہیرو اور دلیر سینیٹر کے طور پر پیش کیا گیا تھا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی شیطانی استعماریت کے خلاف اور ملّاؤں کے حق میں اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ سیاسی ایجنڈے کے حامل ڈیموکریٹس خامنہ ای وائرس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔انھیں ایک تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے خار ہے اور وہ ان کا مواخذہ چاہتے ہیں۔وہ ایسے بیانات جاری کررہے ہیں جن میں امریکا سے ایران کے خلاف عاید کردہ پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور انھیں اس بات کی کوئی خیر خبر نہیں کہ زمینی حقائق کیا ہیں ؟پھر وہ امریکی محکمہ خزانہ اور خارجہ کے ایسے بیانات کو نظرانداز کررہے ہیں جن میں انھوں نے وضاحت کی ہے کہ انسانی امداد پر کوئی قدغنیں عاید نہیں ہیں۔ وہ جواد ظریف کے نقد رقوم کے حصول کے لیے دامِ تزویر میں تو آگئے ہیں لیکن وہ اس زمینی حقیقت سے بھی آگاہ نہیں کہ ایرانی نظام نے شام میں صدر بشارالاسد کے نظام اور لبنان میں حزب اللہ کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔ مزید برآں ایرانی عوام تو کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد سے اپنی زندگیاں بچانے کی جنگ لڑرہے ہیں جبکہ پاسداران انقلاب ایران نے عراق کی جانب بڑی آزادی سے میزائل چھوڑنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور امریکی فوجیوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
تاہم اب تک ایک اور خوف ناک تلخ حقیقت ہے جس کو ہمیشہ سے نظرانداز کیا جارہا ہے اور وہ خامنہ ای کی قریباً 200 ارب ڈالر مالیت کی دولت ہے۔وہ ایران میں بدترین انسانی بحرانوں اور قدرتی آفات کے وقت بھی اس کو ہاتھ لگانے سے گریزاں رہے ہیں لیکن اب ایرانی عوام ایسے نہیں رہے ہیں کہ انھیں بآسانی بے وقوف بنایا جاسکے۔ ایرانی نظام کے آمر کے مذکورہ مضحکہ خیز بیانات کے بعد دنیا بھر میں مقیم ایرانی غیظ وغضب کا شکار ہوگئے تھے اور انھوں نے ٹویٹر پر خامنہ ای وائرس کے نام سے ہیش ٹیگ چلا دیا تھا۔اس میں ایرانی رہبرِ اعلیٰ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔امریکا ، برطانیہ اور نیدرلینڈز سمیت کئی ایک ممالک میں یہ ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا رہا تھا۔یہ آج تک استعمال کیا جارہا ہے۔ایرانی دنیا اور بالخصوص امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو خامنہ ای وائرس کی زہرناکی اور ہلاکت آفرینی کے بارے میں خبردار کررہے ہیں۔یہ وائرس ایک وَبا بنتا جارہا ہے اور وہ بھی کووِڈ-19 سے زیادہ مہلک وبائی شکل اختیار کررہا ہے۔