اس حقیقت کا ادراک تو ہم سب کو تھا کہ ورچوئیل یا آن لائن ایجوکیشن جو کہ فاصلاتی نظامِ تعلیم (ڈسٹنس ایجو کیشن) کی جدید شکل ہے، اپنے اندر تعلیم و تربیت کے بے شمار مواقع چھپائے ہوئے ہے۔ لیکن کرونا وائرس کے پھیلاؤکے باعث ہونے والے حالیہ لاک ڈاؤن نے جس طرح ہر سطح پر روایتی تعلیمی نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا، ورچوئیل ایجوکیشن نے سکول سسٹمز اور اساتذہ کے کام آ کراپنی افادیت کو منوا لیا ہے۔ موجودہ حالات میں تو ورچوئیل ایجوکیشن کے مخالفین کو بھی اس کے حق میں بولنا پڑا بلکہ اسے سمجھنا اور سیکھنا بھی پڑا ہے۔
ورچوئیل ایجوکیشن کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان جیسے ملک کے لیے ہے ہی نہیں کہ یہاں اوورپاپولیشن اور وسائل کی بہت کمی ہے۔ اصل میں توورچوئیل ایجوکیشن ہے ہی پاکستان جیسے ممالک کے لیے جو وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ کیونکہ اس میں آپ کو سکولز کے لیے الگ سے عمارات کی ضرورت نہیں۔ ان میں فرنیچر اور سہولیات مہیا کرنے کی ضرورت نہیں۔ پڑھنے اور پڑھانے کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں اور سیکشن وائز چالیس، پچاس بچوں کے لیے الگ الگ اساتذہ کوتفویض کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ چند ماہر اساتذہ کے اسباق کی ریکارڈنگ دنیا میں کہیں بھی بیٹھ کر دیکھی جا سکتی ہے اور دیے گیے مواد سے سیکھا جا سکتا ہے۔ سٹوڈنٹس کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی اس سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔ اپنے آئڈیاز اور سٹائل کے ساتھ اس کو بہتر سے بہتر بنا سکتے ہیں۔ رہے انٹرنیٹ اور کنکشن وغیرہ کے مسائل تو وہ دنیا میں ہرجگہ ہیں۔ لیکن یہ مسائل ورچوئیل ایجوکیشن کی راہ میں رکاوٹ نہیں کیونکہ اس میں استاد اور تلامذہ کا ایک ہی وقت میں آن لائن رہنا بالکل ضروری نہیں۔ ریکادڈڈ لیکچرز، کوئزز، اسائنمنٹس اور ان کے بارے میں ایک ایک ہدایت لرننگ مینیجمنٹ سسٹم یا خاص طور پر پڑھانے کے لیے بنائی گئی اسی تعلیمی ویب سائیٹ پر موجود ہوتی ہے۔ آپ نے بس مقررہ دن اور وقت سے پہلے پہلے اپنے حصے کے اسباق پڑھنے ہیں اور دیا گیا ہوم ورک مکمل کرنا ہے جو کہ آپ دن یا رات میں کسی وقت بھی بھیج سکتے ہیں۔ گریڈنگ کے سٹینڈردڈ مقرر ہیں۔ ان سے کم معیار کے کام کو قبول نہیں کیا جاتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنا کام بہتر بنانے کے کئی ایک مواقع بھی دیے جاتے ہیں۔ سوال و جواب کے لیے ای میل کا ایڈریس بھی دیا گیا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ ڈسکشن کے لیے دیگر فورم ہوتے ہیں جہاں سے کورس اور کام کے بارے میں ہر طرح کی معلومات مل جاتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ورچوئیل ایجوکیشن طلبا و طالبات کواحساسِ ذمہ داری، خود انحصاری اور وقت کا بہتر استعمال کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کی اچھی سے اچھی یونیورسٹی ورچوئیل ایجوکیشن کے ذریعے تعلیم آفر کر رہی ہیں۔ جن مضامین میں ہمیں عملی کام کی ضرورت ہے اس کے لیے بھی ایسے ایسے اقدامات کیے گئے ہیں اور ایسا جامع سسٹم متعارف کروایا گیا ہے کہ ہمارے بہت سے فارمل سکولوں میں بھی اس طرح پڑھایا اور سمجھایا نہیں جاتا۔ عملی کام کے لیے ای پورٹ فولیو بنائے اور جمع کروائے جاتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی جو فون یا کمپیوٹر پر انٹرنیٹ استعمال کرسکتا ہے، ورچوئیل ایجوکیشن کے ذریعے پڑھ سکتا ہے اور ایک دو نہیں بلکہ لا تعداد مضامین میں سے کوئی ایک (یا ایک سے زیادہ) بھی انتخاب کرسکتا ہے۔ عام دلچسپی کے کچھ کورسزتو بالکل فری ہیں۔
لیکن ہزارہا فوائد ہوتے ہوئے بھی چھوٹے بچوں کے لیے ورچوئیل ایجوکیشن کو مکمل طور پر اپنانے کا مشورہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بچوں کے لیے کتابوں کے علم سے زیادہ ضروری ہے ملنا جلنا اور لائف سکلز کا سیکھنا اور جب تک ہم سکول کے متبادل کوئی ایسا نظام نہیں ڈھونڈ لیتے جو ان کواپنی کمیونٹی اور معاشرے سے جوڑنے میں ایسا کردار ادا کر سکتا ہو، ہم کو سکولز پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس لحاظ سے آن لائن ایجوکیشن بچوں کے لیے زیادہ کلاس روم یا سکول میں پڑھائی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی جیسا کہ ویڈیو کال بالمشافہ ملاقات کے جیسی کبھی نہیں ہوسکتی لیکن بہرحال اس کی افادیت سے انکار نہیں۔
کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو وہ تمام بچے جو کسی بھی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے اب اس سے فائدہ اٹھا تے گھروں میں بیٹھے پڑھ رہے ہیں۔ سکولز نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ٹیچرز کو اپنے اپنے اسباق کی ویڈیو ریکارڈ کرنے اور بچوں کو وٹس ایپ گروپس بنا کر اسائنمنٹس کرنے کا کہہ کرخود کو فیس لینے کا حقدار ثابت کیا ہے۔ اور گھبرائے ہوئے والدین نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے سکھ کا سانس لیا ہے۔ اسی طرح آن لائن ٹیچنگ اور لرننگ سکھانے کے بہت سے ادارے سامنے آ گئے ہیں جن کو ان کی پرفارمنس سے قطع نظر سراہنا ضروری ہے۔
میں یہاں آپ کواپنے بارے میں بتاتی چلوں کہ خود میں نے اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کو آخری آپشن کے طور پر چنا تھا۔ اور ہمیشہ سب کو یہی مشورہ دیتی رہی ہوں کہ اسے آخری آپشن کے طور پر ہی لیں لیکن یہ سراسر اس ریسپانس کی وجہ سے ہے جومجھے یونیورسٹیز اور جاب مارکیٹ سے ملتا رہا ہے۔ میں نے لاہور کالج فار وویمن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ اپنی ورچوئیل پڑھائی جاری رکھی۔ اوراب تک میں کورسیرا(Coursera) کے توسط سے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اورایچ ای سی پیرس(HEC Paris) سے ورچوئیل ٹیچنگ اور انسپائریشنل لیڈرشپ میں اسپیشلائزیشنز مکمل کر چکی ہوں۔ فی الحال میں یونیورسٹی آف ائریزونا سے سیکنڈ لینگوئج کو پڑھانے میں اسپیشلائزیشن کررہی ہوں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی آف پیپلزکی وساطت سےآئی بی ایجوکیشن میں ماسٹرز کر رہی ہوں جواس وقت دنیا کی بہترین ایجوکیشن مانی جاتی ہے۔
چھ برس پہلے کسی انٹرنیشنل یونیورسٹی سے اس طرح تعلیم حا صل کر نے کا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ جو کچھ میں نے سیکھا وہ ورچوئیل ایجوکیشن کے بغیر نا ممکن تھا اور اس کے لیے میں ان اداروں اور ٹیکنالوجی کے علاوہ اپنے پڑھنے کے شوق کی بھی شکرگذار ہوں۔ یہی سچ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی تو بس ایک آلئہ کار ہے جس کا اصل مقصد ایجوکیشن کا فروغ ہے۔ اب یہ ہم انسانوں پر منحصر ہے کہ ہم اسے کیسے اور کن مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔