ملک کے مستقبل کا دارومدار بڑی حد تک اس بات پر ہوگا کہ حکومت اور عوام ماہِ رمضان میں جنم لینے والے چیلنجوں سے کتنی اچھی یا بُری طرح نمٹیں گے۔
ایک طرف جہاں حکومت کے لیے یہ بڑا چیلنج ہے کہ وہ عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے کیا ضروری اقدامات کرتی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو کتنی اچھی طرح بروئے کار لاتی ہے تو عوام کو اپنے جذبات اور تنگ نظر مفاد کے بجائے معقول پسندی ثابت کرنی ہوگی۔
ماہِ صیام میں نمودار ہونے والے طاقتور پریشر گروپس سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے لیے عوام اور حکومت دونوں کو عزم و ہمت کی ضرورت ہوگی۔
پہلا پریشر گروپ علما پر مشتمل ہے جنہوں نے تراویح، جمعے کے اجتماعات اور اعتکاف کے سلسلے کو بلا تعطل جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔ لیکن چند علما نے حکام کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ ان میں سے ایک مولانا فضل الرحمٰن ہیں۔
صدرِ پاکستان نے علما سے بات کی اور وائرس کے پھیلاؤ پر ضابطہ لانے کے لیے مشترکہ ایس او پیز تشکیل دیں۔ اس معاہدے کے تحت مساجد ہر قسم کے اجتماعات کے لیے کھلی رہیں گی، نمازیں ہال کے بجائے کھلی جگہوں پر ادا کی جائیں گی، نمازی ایک دوسرے سے 3 فٹ کا فاصلہ رکھیں گے اور صفوں میں 6 فٹ کا فاصلہ رکھا جائے گا۔
کوئی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ مذکورہ پلان وائرس کی منتقلی کو روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے مگر اس پلان پر عملدرآمد ہوجاتا ہے تب بھی اس سے کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
مگر مذہبی رہنماؤں نے آخر کیوں حکومت کے منہ پر اپنی احتیاطی تدابیر کا پلان دے مارا؟ یہ ممکن ہے کہ چند دانشور یہ مانتے ہوں کہ عالمی وبا کا خطرہ منڈلانے کے باوجود اجتماعات کروانا ان کا حق ہے۔ چلیے یہ تو سمجھ آتا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر کے قائل نہیں لیکن ساتھی نمازیوں کی فکر نہ کرنا سمجھ سے باہر ہے۔
ان کی یہ دلیل بالکل ٹھیک ہے کہ مساجد میں ہونے والے ہجوم سے زیادہ دکانوں پر لگے رش سے مرض کے پھیلاؤ کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ لیکن ہم بس یہ امید ہی لگاسکتے ہیں کہ وہ مذہبی معاملات میں اپنی خود مختاری کو تسلیم کروانے کے لیے مذہب کی جانب حکومتی جھکاؤ کا فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں، اور اس معاملے میں تو سعودی اور مصری حکام کے فیصلوں کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذہبی معاملات میں حکومت کے روایت پسندوں کے ساتھ تعلقات کا حتمی نکتے پر پہنچنا ابھی باقی ہے۔
دوسرا گروہ جو کورونا وائرس کے خلاف جنگ کو متاثر کرسکتا ہے وہ ’رمضان معیشت‘ پکاری جانے والی معاشی سرگرمیوں سے منافع کمانے والے افراد پر مشتمل ہے۔
دکانداروں اور دیگر کاروباری افراد کی ایک کثیر تعداد کے لیے ماہِ رمضان درحقیقت بے قابو منافع خوری کا مہینہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ پھلوں، سبزیوں اور افطار کی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کردیتے ہیں۔ حتیٰ کہ جہاں قیمتوں میں اضافہ ناممکن ہو، پھر بھی شربت، چینی، دودھ اور ڈبل روٹی کی طلب میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے اور رواں سال تو ویسے بھی اسپیشل بازار لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
15ویں روزے کے بعد عید کی خریداری شروع ہوجاتی ہے اور درزیوں کے لیے کمائی کا یہی سب سے بہترین موقع ہوتا ہے۔ دوسری طرف بڑوں اور بالخصوص بچوں کے تیار شدہ ملبوسات اور جوتوں کی طلب میں بھی زبردست اضافہ ہوجاتا ہے۔
جن افراد نے لاک ڈاؤن کا احترام نہ کیا بھلا ان پر کفایت شعاری کی درخواست کیا اثر کرے گی؟ پھر کیا شہر میں بسے لوگوں کو اندرونِ ملک اپنے اہلِ خانہ کے پاس جانے سے روکنا ممکن ہوگا کہ جس کی وجہ سے بین الشہری روڈ ٹرانسپورٹ چلانے والوں کو کرائے بڑھانے کا موقع دستیاب ہوجاتا ہے اور بہت سارے مسافر اضافی کرائے دینے کے باوجود بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر اپنی اپنی منزلوں تک پہنچتے ہیں؟
رواں برس سیاسی افطار پارٹیوں اور نجی شعبے کے ملازمین کی یہ ساری روایتی سرگرمیاں اور تقریبات کے متاثر ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں کیونکہ اس بار ان میں سے زیادہ تر آمدن سے محروم ہوں گے۔ مگر لاکھ کوشش کرلیجیے رمضان کی بھرپور معاشی سرگرمیوں سے وابستہ تاجروں کی توقعات اور ان افراد کی مایوسی پر قابو پانے کا کوئی طریقہ نہیں سوجھتا جو عالمی وبا کے ظلم کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
2 عناصر عوامی مایوسی میں بڑی حد تک اضافہ کریں گے۔ پہلا چھوٹے کاروبار کے لیے ریلیف کی عدم دستیابی۔ مثلاً ایک چھوٹی دکان کے مالک کے پاس اپنے 2 یا 3 ملازمین کو تنخواہ دینے کے وسائل نہیں ہیں یا پھر ایسے بھی گھرانے ہیں جن کی آمدن کا ذریعہ دکان کا ماہانہ کرایہ ہے جس کی ادائیگی کے لیے کرایہ دار کے پاس اس وقت پیسے ہی نہیں ہیں۔ دونوں صورتوں میں کاروباری پابندیوں کو قبول کرنا ناقابلِ برداشت مشکلات کو دعوت دینے کے مترداف ٹھہرتا ہے۔
عوامی مایوسی کا دوسرا سبب اس بات پر عدم اطمینان ہے کہ عالمی وبا سے نمٹنے کے اقدمات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔ کورونا کا پہلا کیس جب رپورٹ ہوا اس سے 2 ماہ بعد بھی لوگوں کی ٹیسٹنگ کے لیے مناسب انتظامات کا خطرناک حد تک فقدان پایا جاتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ حکام کی جانب سے متاثرین کی وہ تعداد بتائی جارہی ہے جو حقیقت سے بہت کم ہے۔
بیرونِ ملک پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے اور ٹکٹوں کو مہنگا کرنے کا معاملہ ایک عرصے سے حل طلب ہے اور قرنطینہ میں ٹھہرنے کا خرچہ جان کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح موقعے کا غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور لوٹ مار مچائی ہوئی ہے۔
احساس کیش پروگرام کی خوبیوں سے قطع نظر لوگوں کو مخصوص جگہوں پر بلانے کے بجائے مستحق خاندانوں کی دہلیز پر امدادی رقوم دینے کے لیے مقامی اداروں کی بحالی ایک اچھا اقدام رہتا۔
علاوہ ازیں جو بھی شخص راشن مانگے اسے راشن دینے کا خیال پاکستان جیسے ملک میں قابلِ عمل تصور نہیں کیا جاتا۔ اموات کے اعداد بتانے کے لب و لہجے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد میں اضافے پر ستائش کی گنجائش تو ہوسکتی ہے لیکن یہ کہنا کہ کیسوں کی تعداد متوقع تعداد سے کم ہے تو یہ بیماروں اور مرنے والوں کو رسوا کرنے کے برابر ہے۔ اگر کورونا وائرس کے دن بدن بڑھتے کیسوں کی تعداد واحد (سنگل) عدد تک گر جائے گی تو بھی یہ بات تشویش اور بے چینی کا باعث ہوگی۔
چنانچہ ماہِ رمضان کے دوران گھر پر رہنے، سماجی دُوری کو اختیار کرنے اور بار بار ہاتھ دھونے سے متعلق نعروں کو مؤثر بنانے کے لیے سرکاری اثرانگیزی کو بھی بڑھانا ضروری ہوگا۔
یہ مضمون 23 اپریل 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔