قادیانیت میرے نزدیک کفر کی بدترین قسم ہے کیونکہ کافروں کے دیگر گروہ خود کو مسلمان نہیں کہتے، نہ ہی اپنے کفر و ضلالت کو اسلام کا نام دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک عام مسلمان کے دھوکا کھانے کا امکان کم ہوتا ہے، جبکہ قادیانی اپنے کفر و ضلالت کو اسلام کا نام دے کر، مسلمانوں کی عبادات ، مذہبی رسومات اور شعائر چرا کر اور خود کو مسلمان کہہ کرعام مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ پھر ان قادیانیوں کی تلبیس کی بدترین شکل اس گروہ نے اختیار کی ہے جو "لاہوری” کہلاتا ہے کیونکہ وہ مرزا صاحب کو "مجدد” کا نام دے کر عام مسلمانوں کو، حتی کہ کئی نامی گرامی اہل علم کو بھی، اس دھوکے میں ڈال چکے کہ یہ تو مرزا صاحب کی نبوت کے قائل نہیں ہیں، اس لیے ان کےلیے تھوڑی سی گنجائش رہتی ہے۔ یہ تلبیس اور دھوکے کی بدترین شکل اس لیے ہے کہ ایک ملعون شخص کو، جو نبوت کا مدعی تھا اور جو اپنے سمیت ہزاروں لاکھوں لوگوں کی گمراہی کا سبب بنا، مجدد ماننا بذاتِ خود کتنی بڑی گمراہی ہے، لیکن اس سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے، جو جناب یحیٰ بختیار صاحب مرحوم نے قومی اسمبلی میں جرح کے دوران میں ان کے سرغنہ کے منہ سے نکلوائی اور جس کا اس نے علی رؤوس الاشہاد اعتراف کیا، کہ جب وہ مرزا صاحب کو مجدد کہتے ہیں تو ان کی مراد نبی ہی ہوتی ہے! اس کے بعد ہی عبد الحفیظ پیرزادہ جیسے بظاہر سیکولر وکیل کو، جو اس وقت وزیر قانون تھے، کہنا پڑا کہ ہمارا خیال تھا کہ لاہوری گروپ نسبتاً کمتر گمراہی میں مبتلا ہے لیکن یہ تو عام قادیانیوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔
قادیانیوں کے ان دونوں گروہوں کو 1974ء میں غیرمسلم قرار دیا گیااور اس مقصد کے لیے دستور میں ترمیم کرکے اس میں مسلمان اور غیر مسلم کی تعریفات شامل کی گئیں ۔ اس فیصلے پر اس وقت کے کبار علماے کرام نے اتفاق کیا۔ ان کی موجودگی میں حکومتی وزرا کی جانب سے اسمبلی کے فلور پر کی گئی تقریروں میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ بطور غیر مسلم قادیانیوں کو عام شہری حقوق میسر ہوں گے۔ یہ بات دستور کے عمومی اصولوں سے بھی معلوم ہے کیونکہ دستور میں بنیادی حقوق کے باب میں دو طرح کے حقوق ذکر کیے گئے ہیں: ایک وہ جو پاکستان میں موجود بھی کسی شخص، حتی کہ شخص اعتباری، کو بھی حاصل ہیں، خواہ وہ شخص باکستان کا شہری ہو یا نہ ہو؛ دوسرے وہ حقوق ہیں جو صرف پاکستانی شہریوں کو حاصل ہیں۔ قادیانیوں کو غیرمسلم تو قرار دیا گیا لیکن انھیں شہریت سے محروم نہیں کیا گیا۔ اس لیے انھیں وہ حقوق بھی حاصل ہیں جو بطور شہری کسی بھی پاکستانی کے حقوق ہیں ، اور ان کے علاوہ وہ حقوق بھی ان کو میسر ہیں جو پاکستان میں موجود کسی بھی شخص کو حاصل ہیں، خواہ وہ شہری بھی نہ ہو ۔
دستور میں یہ تصریح بھی کی گئی ہے کہ بعض دستوری عہدوں ، جیسے صدر اور وزیراعظم ، پر تعیناتی صرف مسلمان کی ہوسکتی ہے۔ اس لیے قادیانیوں کو جب غیرمسلم قرار دیا گیا تو نتیجتاً وہ ان عہدوں پر تعیناتی کےلیے نااہل قرار پائے۔ ان دستوری عہدوں کے علاوہ کئی پاکستانی قوانین ایسے ہیں جن کا اطلاق صرف مسلمان شہریوں پر ہوتا ہے، جیسے زکوۃ و عشر کا قانون ہے، یا نکاح ، طلاق ، وراثت وغیرہ کے متعلق مسلم پرسنل لا (شریعت) ایپلی کیشن ایکٹ ہے۔ چنانچہ ایسے قوانین کا اطلاق بھی قادیانیوں پر نہیں ہوتا۔
دستور میں مذکور ہر دو قسم کے حقوق ، کسی بھی شخص کے حقوق اور کسی بھی شہری کے حقوق، کے متعلق تصریح ہے کہ ان کا استعمال قانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا جائے گا۔ البتہ دستور میں یہ تصریح بھی کی گئی ہے کہ کوئی قانون اگر ان حقوق سے متصادم ہو تو وہ کالعدم ہوگااور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔اب اگر کسی قانون میں کسی حق کی تحدید کی گئی تو اس پر یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ یہ محض تحدید نہیں ہے ، بلکہ یہ تو بنیادی حقوق سے ہی متصادم ہے۔ چنانچہ دستور نے یہ اختیار ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کو دیا ہے کہ وہ دیکھیں کہ مذکورہ قانون کو "تحدید” قرار دے کر جائز و نافذ مانا جائے یا "متصادم” قرار دے کر ناجائز و کالعدم قرار دیا جائے۔
قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیے جانے کے باوجود جب وہ عام لوگوں کے سامنے خود کو مسلمان کے طور پر پیش کرتے رہے اور مسلمانوں کی اصطلاحات بھی استعمال کرتے رہے، تو 1984ء میں ایک قانون کے ذریعے، جو اب تعزیراتِ پاکستان کا حصہ ہے، ان کے ایسے افعال کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا۔ قادیانیوں کی جانب سے اس قانون کو سپریم کورٹ میں اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا کہ یہ ہمارے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے 1993ء میں فیصلہ سنایا کہ یہ قانون دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے، کیونکہ قادیانیوں کے یہ افعال دھوکادہی پر مبنی ہیں اور کوئی دستوری حق کسی کو دھوکے کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ یہ قانون آج بھی موجود ہے اور یہ افعال آج بھی جرم ہیں۔
چنانچہ دستوری اور قانونی پوزیشن یہ ہے کہ قادیانی غیرمسلم شہری ہیں، وہ خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کرسکتے، نہ ہی مسلمانوں کی اصطلاحات اپنےلیے استعمال کرسکتے ہیں، اس تحدید کے ساتھ دستور میں مذکور باقی حقوق ان کو دستیاب ہیں۔ بعینہ یہی حیثیت پاکستان کے مسیحی، ہندو،سکھ اور دیگر غیرمسلم شہریوں کی ہےکہ وہ خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہ کریں، مسلمانوں کی مذہبی اصطلاحات اپنے لیے استعمال نہ کریں، اور ان حدود کے اندر ان کو دیگر دستوری حقوق دستیاب ہیں۔ ان میں ایک اہم حق مذہب کی تبلیغ کا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ قادیانی اپنے مذہب کی تبلیغ کرکے کسی کو قادیانی بناسکتے ہیں؟ اس سوال کے متوازی اسی نوعیت کا سوال یہ ہے کہ کیا ہندو یا مسیحی کسی کو تبلیغ کرکے ہندو یا مسیحی بناسکتے ہیں؟ واضح رہے کہ دستور میں بظاہر کوئی قدغن نظر نہیں آتی لیکن دستور چونکہ اسلامی ہے اور ہر حق پر اسلامی قانون کی تحدیدات موجود ہیں ، اس لیے ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے۔
میں نے اس موضوع پر جو کچھ لکھا وہ اسی دستوری و قانونی پوزیشن کی توضیح کےلیے تھا کیونکہ ہمارے بیشتر علماے کرام کو ان بنیادی حقائق کے متعلق پوری آگاہی نہیں ہے اور انھوں نے یہ فرض کیا ہوا ہے کہ چونکہ ان کی نظر میں قادیانی عام غیرمسلموں سے مختلف ہیں، اس لیے ان کےلیے وہ حقوق نہیں مانے جاسکتے جو مسیحی یا ہندو شہریوں کےلیے مانے گئے ہیں۔ کسی نے کہا کہ قادیانی زندیق ہیں، کسی نے کہا کہ مرتد ہیں، کسی نے کہا کہ فتنہ ہیں۔ یہ ساری باتیں آپ کے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے درست ہوسکتی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ مجھے ان میں سے کسی رائے سے اتفاق یا اختلاف ہو، لیکن دستوری اور قانونی پوزیشن یہ نہیں ہے۔
جہاں تک زندقہ یا فتنہ کا تعلق ہے، پاکستانی قانون کےلیے یہ اصطلاحات اجنبی ہیں ۔ البتہ ارتداد پر بات ہوسکتی ہے۔ پاکستانی قانون کی رو سے ارتداد کی صرف ایک قسم کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے اور وہ ہے توہینِ مذہب۔ پھر توہینِ مذہب کی مختلف قسموں پر پاکستانی قانون میں مختلف سزائیں ہیں۔ مثلاً مذہبی عقائد و تصورات کی توہین پر دس سال تک کی قید، قرآن کریم کی بے حرمتی پر عمر قید اور رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی پر سزاے موت۔ اب اگر کسی مسلمان نے خدا یا فرشتوں کی شان میں گستاخی کی تو شرعاً وہ مرتد ہوا اور مرتد کی سزا موت ہے لیکن پاکستان میں اس کی سزا دس تک کی قید ہے (جو دس سال سے کم بھی ہوسکتی ہے لیکن زیادہ نہیں ہوسکتی)۔ اسی طرح قرآن کی بے حرمتی اگر کسی مسلمان نے کی تو یہ بھی شرعاً ارتداد ہے لیکن اس پر پاکستانی قانون میں عمر قید کی سزا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ دیکھیے کہ اگر کسی نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام یا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی تو اسے دس سال تک کی قید کی سزا ہوسکتی ہے، حالانکہ شرعاً کسی بھی نبی کی شان میں گستاخی ایک ہی نوعیت کا جرم ہے اور کسی بھی نبی کی شان میں گستاخی پر وہی سزا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی پر ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت حکومت کو حکم دے چکی ہے کہ توہینِ رسالت کی سزا کے قانون میں ایک شق کا اضافہ کرکے اس میں تصریح کی جائے کہ یہی سزا کسی بھی نبی کی شان میں گستاخی پر دی جائے گی لیکن 29 سال بعد بھی قانون میں اس شق کا اضافہ اب تک نہیں کیا گیا۔
ایک اہم نکتہ اس دوران میں یہ اٹھایا گیا کہ چونکہ قادیانیت نے ختمِ نبوت پر ڈاکا ڈالا ہے، اس لیے یہ توہینِ رسالت ہے اور اس وجہ سے ہر قادیانی توہینِ رسالت کا مرتکب ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شرعی لحاظ سے ایسا ہو، اور ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔ اس پر بات ہوسکتی ہے ۔ تاہم اتنی بات طے ہے کہ اگر بات پاکستان کے قانون کی ہورہی ہے تو اس میں ایسا نہیں ہے۔ اس نے قادیانیوں کو غیرمسلم تو قرار دیا ہے لیکن توہینِ رسالت کا مرتکب نہیں کہا، بلکہ توہینِ رسالت ایک خاص نوعیت کا جرم ہے جسے قادیانیوں کے خود کو مسلمان کے طور پر پیش کرنے سے الگ جرم کے طور پر رکھا گیا ہے۔ (توہینِ رسالت کا جرم اور اس کی سزا تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-سی میں ہیں، جبکہ امتناع قادیانیت والی سزائیں دفعات 298- بی اور سی میں ہیں۔) اس ضمن میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر آپ واقعی قادیانیوں کو، سب قادیانیوں کو، توہینِ رسالت کا مرتکب سمجھتے ہیں ، تو سب کے خلاف بیک وقت دفعہ 295-سی کے تحت پرچا کیوں نہیں کٹواتے؟ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ریاست سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کررہے کہ وہ پوری قادیانی کمیونٹی کے خلاف قتال کرے؟ ہم جانتے ہیں کہ ارتداد یا توہینِ رسالت کا جرم ایک فرد یا چند افراد کریں تو یہ سزاؤں کے قانون کا مسئلہ ہوتا ہے لیکن اگر پوری کمیونٹی ارتداد یا توہینِ رسالت کا ارتکاب کرے ، تو یہ قتال کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ یہ میں آپ کو آپ ہی کے موقف کے لازمی منطقی نتائج بتارہا ہوں۔ جہاں تک پاکستانی قانون کا تعلق ہے، اس کی رو سے ایسا نہیں ہے اور میں آپ کے سامنے یہی حقیقت واضح کرنا چاہ رہا تھا کہ قادیانیوں کے متعلق آپ کی فرض کردہ شرعی تکییف اور پاکستانی قانون کی رو سے قادیانیوں کی حیثیت میں فرق ہے۔
اب اگر آپ پاکستانی دستور اور قانون کی رو سے قادیانیوں کی اس حیثیت کو شرعاً غلط سمجھتے ہیں تو بے شک آپ کو یہ حق ہے کہ اس دستوری اور قانونی حیثیت پر سوال بھی اٹھائیں، اس پر بھی تنقید بھی کریںِ اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش بھی کریں لیکن بس یہ بات مد نظر رہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کوشش میں ہم وہ کچھ بھی کھو بیٹھیں جو ہمارے بزرگوں اور ہمارے پہلوں کی کئی عشروں پر مبنی مسلسل قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں ہم حاصل کرچکے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ دانا دشمن سے نادان دوست زیادہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔
پس نوشت: اس موضوع پر اپنی پہلی پوسٹ میں میں نے دس نکات ذکر کیے تھے جن میں صرف ایک نکتے پر، حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ نے تبصرہ کرنا مناسب سمجھا اور وہ ارتداد کے متعلق میری راے تھی۔ ان کو یہ تاثر ملا ہے کہ شاید میں ارتداد کی بحث نئے سرے چھیڑرہا ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ارتداد، زندقہ، فتنہ وغیرہ کی باتیں دوسرے اہل علم کررہے ہیں اور مجھ سے کئی لوگوں نے اس کے متعلق استفسار کیا تو مجھے وضاحت کرنی پڑی کہ میری ذاتی راے یہ ہے لیکن دستوری اور قانونی پوزیشن اس سے مختلف ہے۔ میری اس موجودہ پوسٹ سے شاید میری بات زیادہ واضح ہوگئی ہو کہ میں اس موجودہ دستوری پوزیشن کو چھیڑنے کے حق میں نہیں ہوں اور اسی لیے میں اس سوال پر بحث ہی نہیں کررہا کہ یہ دستوری پوزیشن کسی اجتہاد کے نتیجے میں مقرر کی گئی ہے، جیسا کہ حضرت علامہ راشدی صاحب بارہا علامہ اقبال کے مشورے کا حوالہ دیتے ہیںِ یا یہ محض وقتی طور پر ایک ممکنہ حل تھا جو 1974ء میں معروضی حالات میں ممکن تھا اور اسی وجہ سے قبول کیا گیا کہ یہ ہوجائے تو پھر بعد میں اس سے آگے جائیں گے، جیسا کہ کئی دیگر اہل علم کی راے ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ یہ اجتہاد ہو یا وقتی ممکنہ حل، اسے تبدیل کرنے کی کوشش کے مفاسد زیادہ ہوں گے اور اس لیے اس دستوری و قانونی پوزیشن پر اکتفا کرکے اس کی روشنی میں قادیانی فتنے، یا زندقہ، یا ارتداد سے نمٹنے کے سلسلے میں اپنی حکمتِ عملی پر غور کرنا چاہیے۔
ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ۔