اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کرنے کی تجویز کے بعد ایک مرتبہ پھر قادیانی مسئلہ اور اس سے جڑے دیگر مسائل نے پھر سر اٹھایا ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ شاید پاکستان میں قادیانیوں کے ساتھ بہت ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں کسی قسم کے بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ آج تک پاکستان میں کبھی کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ قادیانیوں کو ملک سے نکال دیا جائے، مٹا دیا جائے، انہیں قادیانیت چھوڑنے پر مجبور کیا جائے یا انہیں شہری حقوق دینے سے محروم کیا جائے۔1973سے پہلے مطالبہ یہ رہا کہ خود قادیانی اپنے بنیادی عقائد ، مذہبی اعمال اور معاشرتی نظام میں مسلمانوں سے خود کو الگ کرچکے ہیں تو اس علیحدگی کو آئینی طور پر تسلیم کیا جائے اور ان کے صراحتا رجوع اور امت کے اجماعی عقیدہ و موقف کی طرف واپسی کے بغیر مسلم سوسائیٹی کا حصہ قرار نہ دیا جائے۔ 1973 کی پارلے منٹ نے مسلمانوں کے اس دیرینہ مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ اس آئینی فیصلہ کے بعد مسلمانوں نے انہیں زندیق یا مرتد کہہ کر انہیں ملک سے نکالنے، قتل کرنے یا ان کے شہری حقوق سلب کرنے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ یہ مطالبہ کیا گیا کہ ان سے آئین کا احترام کروایا جائے اور انہیں آئینی فیصلے کی روح کے مطابق پاکستان میں رہنے کا پابند بنایا جائے۔ قادیانیوں نے اس آئینی فیصلے کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ اس فیصلے کا مذاق اڑایا، ریاست مخالف سرگرمیوں کا حصہ بنے، پاکستان کے خلاف سازشوں کو کامیاب کرنے کی کوششیں کی اور ہمیشہ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کی وفاداری میں پیش پیش رہے۔
یہ تاثر دینا کہ پاکستان کے عوام قادیانیوں کے قتل کے درپے ہیں یا انہیں اس ملک سے نکالنا چاہتے ہیں، بالکل غلط ہے۔ بعض ایسے واقعات ہوئے جن میں قادیانیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی مگر ایسے چند ایک واقعات کی بنا پر یہ کہہ دینا کہ مسلمان قادیانیوں کی قتل و غارت پر تل گئے ہیں، غلط ہے۔ ایسے واقعات بھی یہاں موجود ہیں جب قادیانیوں نے پولیس اور فوج کی وردیاں استعمال کیں اور مسلمانوں کو فوج اور پولیس کے روپ میں تشدد کا نشانہ بنایا۔ تحریک ختم نبوت کے دوران ایسے بہت سے واقعات پیش آئے۔ آج کہا جاتا ہے کہ اس قانون پر نظر ثانی کی جائے، قادیانیوں کو مکمل حقوق دیے جائیں وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ ہے کہ جو گروہ تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیکر آپ سے خود الگ ہو، اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے، جو گروہ ملک پاکستان کے خلاف مسلسل برطانوی سازشوں کا حصہ رہے، اسے کیسے تسلیم کرلیا جائے، جو گروہ پاکستان جیسے اکثریتی مسلم آبادی کے حامل ملک کو اپنے عقیدے کے مطابق اقلیتی مسلم آبادی کا حامل ملک بنانے کے خواب دیکھے اور اس کے لیے مسلسل جدوجہد کرے، اسے کیسے ٹھنڈے پیٹوں ہضم کیا جاسکتا ہے۔؟
پھر بھی مسلمانان پاکستان نے آئین کو تسلیم کرلینے کی صورت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کرنے کی صورت باقی رکھی مگر قادیانی آج تک پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے اور اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت سمجھتے ہوئے آئین پاکستان کا پابند بنانے پر امادہ نہیں۔
اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کا جو چورن حکومت بیچنا چاہتی ہے اور ہمارے بہت سارے احباب اسے بڑا صائب فیصلہ سمجھ رہے ہیں۔ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔حکومت میں موجود قادیانی لابی نے یہ حرکت جان بوجھ کر کروائی ہے تاکہ انکی اہمیت میں اضافہ ہو اور وہ مظلوم بن کر بیرونی دنیا کو پاکستان مخالفت پر مزید آمادہ کرسکیں۔
بنیادی چیز دستورِ پاکستان کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ اس پس منظر میں کسی بھی منصب کے لیے کسی قادیانی کا اسی دستور کے تحت شامل ہونا ہی مشکوک ہو جاتا ہے۔ عدالتی فیصلوں کی روشنی میں بنائے جانے والے کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کرنا جس دستور کی مسلم و غیرمسلم کی تعریف پر مشتمل شقوں کے ذریعے ممکن ہے، اسی دستور کی قادیانیوں سے متعلق شق کو وہ قبول کرنے سے ہی انکاری ہیں تو انکی شمولیت کا آئینی و اخلاقی جواز کیا ہوگا۔
بڑی سادہ سی بات ہے کوئی قادیانی جب تک دستور کے حوالے سے اپنے جماعتی فیصلے اور طرز عمل سے براۃ کا اعلان نہ کرے اس وقت تک دستور پاکستان کے تحت اسےکسی کمیشن یا فورم کا حصہ بنانا خود دستور کے تقاضوں اور اسکی حرمت کے منافی ہے ۔یوں نظر آرہا ہے کہ جس طرح ملک کی معیشت کے بارے میں ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نام پر امریکی غلامی کو قبول کرچکے ہیں، اسی طرح نظریہ و عقیدہ کے محاذ پر بھی یہ حکومت اول روز سے امریکی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کی پوری کوشش کررہی ہے جس کا آغاز عاطف میاں کی تقرری سے ہوا تھا ۔ لیکن یہ مسئلہ بہت نازک اور حساس ہے، اس میں اگر ایک طرف امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا دباؤ ہے تو دوسری طرف پاکستان کے دینی حلقوں اور عام مسلمانوں کا عقیدہ و ایمان اور ان کے دینی جذبات و احساسات ہیں۔
فیصلہ بہرحال حکومت نے کرنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے آئین کا تحفظ کرتے ہوئے مسلمانوں کے عقید ہ و ایمان کے ساتھ کھڑے ہونا یا امریکی دباو میں اپنی حکومت کو داؤ پر لگانا ہے۔ ویسے اس حوالے سے پہلی حکومتوں کے تجربات اچھے نہیں ہیں۔بقول ہمارے دوست سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے، عقیدہ ختم نبوت ایسی چیز ہے جسے سمجھے اور مانے بغیر پاکستان پر حکومت و اقتدار کا تصو نہیں کیا جاسکتا۔