امریکا میں اکتوبر 1929ء میں ایک بڑے معاشی بحران نے جنم لیا ۔اس کو تاریخ میں عظیم کساد بازاری (Great Depression) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس بحران نے مال دار اور غریب ممالک کو یکساں طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ صنعتیں بند ہو گئی تھیں، سرمایہ کاروں کی ساری جمع پونجی ڈوب گئی اور اقتصادی ترقی و خوشحالی قصہ پارینہ بن گئی تھی۔ پوری دنیا میں بے روزگاری کی شرح 33 فی صد سے تجاوز کر گئی۔ چناں چہ صرف برطانیہ میں تیس لاکھ، جرمنی میں ساٹھ لاکھ اور امریکا میں ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد بے روزگار ہوئے۔ معاشی ابتری کی وجہ سے عالمی تجارت کا مجموعی حجم 50 فی صد سے بھی زیادہ تنزل کا شکار ہو گیا۔ اشیائے خورونوش کی گرانی، حالات کی بے یقینی اور لگاتار پریشانیوں نے بے شمار لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کر دیا۔ اس بحران کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ 1932ء تک امریکامیں موجود ہر قابل ذکر بینک بند ہو چکا تھا۔
کساد عظیم 1933ء یعنی چار سال تک پوری شدت کے ساتھ برقرار رہا ۔اس دوران میں دنیا میں بالعموم اور یورپ اور لاطینی امریکا میں بالخصوص غربت کے مارے عوام نے پے در پے ہڑتالوں اور ہنگاموں کے ذریعے اندرونی خلفشار اور عدم استحکام کو برانگیختہ کیا۔ چناں چہ کئی ملکوں میں انتظامی و سیاسی منظر نامہ یکسر بدل گیا۔ جرمنی میں نازی پارٹی کے سربراہ ایڈولف ہٹلر نے ان ہی دگرگوں حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 1933ء میں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر اپنے آمرانہ اقتدار کی راہ ہموار کی۔
کرونا وائرس اس سال کے اوائل میں دنیا میں پھیلنا شروع ہوا ۔ابتدا میں احتیاطی تدابیر کے حوالے سے لوگوں کا رویہ سطحی اور غیر سنجیدہ تھا ۔تاہم جوں جوں وائرس کہ شدت نے زور پکڑا اور اس کی ہلاکت آفرینی کے اثرات نمایاں ہوئے تومختلف ملکوں نے سخت حفاظتی اقدامات کیے۔ دنیا کے طول و عرض میں طویل لاک ڈاؤن کی بنا پر لاکھوں کمپنیاں بند ہو چکی ہیں اور کروڑوں لوگ اپنی ملازمتوں سے عارضی یا مستقل طور پر ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق اس سال عالمی معیشت کو 3 فی صد تک خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اسی لیے معاشی ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اقتصادی مشکلات اور زبوں حالی کے اعتبار سے آنے والا وقت کساد ِعظیم کی بھیانک یادوں کو تازہ کر سکتا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر برطانیہ میں لاک ڈاؤن مزید دو تین ماہ جاری رہتا ہے تو برطانوی معیشت اس حد تک انحطاط اور گراوٹ کا شکار ہو جائے گی جس کی گذشتہ تین صدیوں میں مثال ملنا محال ہے۔
کرونا وائرس کے بے مہار پھیلاؤ کے باعث مغربی ممالک کی سٹاک مارکیٹوں میں 1987ء کے بعد پہلی مرتبہ زبردست مندا پڑا ہے۔ ماضی قریب میں کئی ملکوں کے مرکزی بینکوں نے سود کی شرح میں کمی کا اعلان کیا ہے تاکہ سرمایہ کاری کو فروغ اور لوگوں کو روزگار ملے۔ اگر لوگ مالی طور پر آسودہ ہوں گے تو اشیائے صرف کی مانگ ہو گی، طلب و رسد میں توازن برقرار رکھنے کے لیے صنعتیں اور کاروبار چلیں گے اور یوں معاشی ترقی کا پہیاحرکت کرتا رہے گا۔ تاہم سرمایہ کار خائف ہیں کہ وائرس کی تباہ کاریاں فزوں ترہو سکتی ہیں اور ان کا سرمایہ خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہر تو کجا، پورے پورے ملک قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔ سو سے زیادہ ملکوں میں بلاضرورت نقل و حمل پر سخت پابندیاں عاید ہیں۔ لوگوں کے اپنے گھر تک محدود ہونے کے سبب پیٹرولیم مصنوعات کی طلب میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ چناں چہ پیٹرول کی قیمتیں اکیس سال کی کم ترین سطح کو چھو رہی ہیں۔ کرونا وائرس کی وبا نے ہوابازی کی صنعت کے ساتھ سیروسیاحت کو بھی بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔ جابجا موجود تاریخی و تفریحی مقامات، میوزیم، ریستوران اور ہوٹل سب بند اور ان سے وابستہ افراد بے کار ہیں۔
امریکا میں اپریل کے آخر تک کم و بیش پینتالیس لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ دیگر ملکوں میں بھی صورت حال زیادہ مختلف نہیں۔ عام حالات میں مغربی ممالک میں بے روزگاری کی شرح کم ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ صرف چھٹی کا دن ہوتا ہے جب وہ اپنے شریکِ زندگی یا خاندان کے افراد کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ موجودہ حالات نے یورپ اور امریکا میں رہنے والے افراد کو بے روزگاری کے ساتھ ایک اور مخمصے میں بھی مبتلا کر دیا ہے اور وہ ہے گھریلو چپقلش اور ناچاقی۔ بیشتر لوگ شباب و شراب اور عیش و نشاط کے رسیا ہوتے ہیں ۔پس اندازی بھی ان کی عادت نہیں۔ چناں چہ روزی کا کوئی مستقل ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زندگیاں اضطراب اور بے قراری اور باہمی ان بن کے سبب اجیرن بن چکی ہیں ۔
اعدادوشمار کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہر ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار اور اس کا دائرہ کار مختلف ہیں۔ ویکسین کی تیاری میں کتنا وقت لگے گا یا دنیا کو کب تک اس بلائے بے درماں سے نجات ملتی ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ ڈر صرف یہ ہے کہ جب تک عراق سے تریاق آئے گا، مریض ہی نہ دم توڑ دے۔
قرآن کریم میں ہے: ’’لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا اور وہ اعراض کرتے ہوئے غفلت میں مبتلا ہیں۔‘‘