میرے پیتم! تم مجھ سے پوچھتے ہو صبرِ جمیل کیا ہے؟ آؤ میری انگلی تھامو میں تمہیں دکھاؤں یہ چاند میں نظر آتا ہے۔ سارے راز اپنے آپ میں سمیٹے ہوئے بھی پرسکون اور خوبصورت، سارے دکھ دیکھتے ہوئے بھی چمکدار اور روشن، رونے والوں کو اپنی چمک اور کرنیں دان کرنے والا۔ صبر جمیل سے اپنی راہ کو رواں دواں کبھی گھٹتا، کبھی بڑھتا لیکن نہ کم ہونے کے دکھ میں کرلاتا ہے اور نہ مکمل ہونے پر اپنی حد سے نکلتا ہے.
میرے پیتم! تم مجھ سے پوچھتے ہو صبرِ جمیل کیا ہے؟ آؤ میں تمہیں زمین کی گہرائیوں تک لے چلوں۔ تم اگر جانو تو یہ راز تم پر عیاں ہو گا کہ کیسے وہ اپنے اوپر پاؤں مار کر چلنے والے کو راہ دکھاتی ہے، اپنے اوپر خون بہانے والے کو آغوش میں لیے پھرتی ہے، تھکے ماندے اور ٹوٹے ہوئے کو اپنا سینہ دیتی ہے کہ آؤ اس پر سجدہ ریز ہو کر سارا غم مجھ پر انڈیل دو۔ تم اس کا صبر دیکھو کیسے کیسے ابدان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اور تم اس کی ہائے کو کہیں نہیں پاتے بلکہ وہ پھل پھول اگائے جا رہی ہے، رہنے والوں کو وسعت دیے جارہی ہے اور اپنے رب کی آواز پر لبیک کہے جا رہی ہے۔
میرے پیتم تم مجھ سے پوچھتے ہو صبرِ جمیل کیا ہے؟ آؤ میں تمہیں درخت کے سائے میں لے چلوں! تم دیکھو اس کا ہر پتّا صبرِ جمیل کا گواہ ہے۔ وہ دیکھو وہ پتھر مارنے والے کو بھی اپنی ریاضت(پھل) دے رہا ہے۔ آؤ میں تمہیں دکھاؤں وہ کیسے کڑکتی دھوپ سے اپنے آپ کو جلا رہا ہے اور اپنے سائے میں بیٹھنے والے کو میٹھی نیند کے سپرد کر رہا ہے۔ آؤ میں تمہیں دکھاؤں کیسے اسے بے دردی سے کاٹا جارہا ہے مگر وہ کاٹنے والوں کے ابدان کو اپنی حدّت سے گرما رہا ہے.
میرے پیتم تم مجھ سے پوچھتے ہو صبرِ جمیل کیا ہے؟ آؤ میں تمہیں ایک ماں کے دل میں لے چلوں، تم دیکھو گے وہ جوان اولاد کی منہ زوری کے باوجود ان کے لیے دعا گو ہے، تم دیکھو گے بوڑھی ہڈیوں کے ساتھ وہ جواں سالوں کے پیٹ کی بھوک کا سامان کر رہی ہو گی۔ تم دیکھو گے جب اسکو جھڑکنے والا گِرے گا تو وہ سب سے پہلے بسم اللہ کہتی ہوئی اسکی جانب بھاگے گی، تم دیکھو تمہیں اسکے پور پور میں صبرِ جمیل نظر آئے گا۔
میرے پیتم! تم مجھ سے پوچھتے ہو صبرِ جمیل کیا ہے؟ آؤ میں تمہیں ایوب علیہ السلام کے پاس لے چلوں کہ وہ تم پر اپنی دعا “انی مسنی الضر وانت ارحم الرحمین” (کہ بے شک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تُو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے) پڑھ کر پھونکیں۔ آؤ میں تمہیں یعقوب علیہ السلام کے پاس لے چلوں اور تم دیکھو کہ غم سے انکی آنکھیں سفید ہو گئیں مگر وہ امید کے نخلستان میں اپنے رب سے لو لگائے بیٹھے ہیں۔ آؤ میں تمہیں یوسف علیہ السلام کے پاس لے چلوں کہ وہ اندھے کنویں میں بیٹھ کر صبرِ جمیل کے روزن سے مصر کا تخت اور نبوت کا تاج دیکھ رہے ہیں۔ آؤ میں تمہیں موسٰی کی والدہ کے پاس لے چلوں کہ کیسے وہ صبر جمیل کے صندوق میں اپنے لاڈلے کو ڈال کر سمندر کے حوالے کر رہی ہیں۔ آؤ میں تمہیں ہاجرہ علیھاالسلام کے صبرِ جمیل کے طواف دکھاؤں جس پر آج سب مرد عورت چکر کاٹ رہے ہیں۔ آؤ میں تمہیں اپنے بابا جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صبرِ جمیل دکھاؤں جو اپنے اور اپنے محبوب لوگوں کے دشمنوں اور قاتلوں کو اسلام کی ردا میں لپیٹ رہے ہیں۔ آؤ میں تمہیں ربّ کائنات کا صبر دکھاؤں جو اپنے آپ کو الصبور کہتا ہے اور صبر کرنیوالوں کو اپنا ساتھی قرار دیتا ہے!
میرے پیتم! تم نے دیکھا کسی کا صبر بھی رائیگاں نہیں گیا۔ تم نے دیکھا صبر کی سواری پر سوار ہونے والے کہیں نہیں گِرے، انکی سواری انہیں بلندیوں تک لے پہنچی، انکے زخم مندمل کر دیے گئے، سفید آنکھوں کو نور بخش دیا گیا، کنویں والے کو تخت پر بٹھا دیا گیا، اور محبوب ملا دیے گئے.
تم بس اپنی سواری پر جم کر بیٹھے رہو، اپنے قدم دعاؤں اور نداؤں کی رکابوب میں پھنسا لو، اپنی جبین کو امید کی فضاؤں اور عاجزی کے سجدوں سے مَسّ ہونے دو، اور اپنی نظروں کو ربِّ کائنات کی رحمت کے اوپر ٹکا لو۔ سنو! نہ ڈگمگانا اور نہ اس سواری سے اترنا تم ایک دن اپنی منزل کو پا لو گے۔ میرے پیتم! اس سواری کی لگامیں تھامے رکھنا پھر ایک دن تم مسکرانے لگو گے اور جب تم مسکراؤ گے تو صبرِ جمیل کا ہر سوار مسکرانے لگے گا.