افغان طالبان نے بھارت اور کشمیر پر حملے سے متعلق ٹوئٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر یقین نہیں رکھتے۔
واضح رہے کہ چند دن قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ شیر محمد عباس استنکزئی کے حوالے سے مختلف ٹوئٹس زیر گردش تھیں۔
ان ٹوئٹس میں کہا گیا تھا کہ طالبان عیدالفطر کے بعد بھارت پر حملہ کردیں گے اور کشمیر میں جاری ‘جہاد’ کا حصہ بن جائیں گے۔
اس کے علاوہ ایسی خبریں بھی زیر گردش تھیں کہ طالبان نے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔
تاہم طالبان کے ترجمان نے نے ایسی تمام تر قیاس آرائیوں خصوصاً بھارت پر حملے کی افواہوں کو مسترد کردیا ہے۔
طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ بھارت کے بارے میں کچھ میڈیا میں جو بیان شائع ہوا ہے اس کا امارت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں، امارت اسلامیہ کی پالیسی واضح ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہے۔
شیر محمد عباس استنکزئی نے بھی اپنے حوالے سے زیر گردش بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں جبکہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی کہا کہ اس بیان کو کوئی اہمیت نہ دی جائے۔
واضح رہے کہ یہ بیانات اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے تھے کہ گزشتہ دنوں افغانستان کے امور کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھارت کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کو افغان امن عمل کے تناظر میں انتہائی اہمیت دی جا رہی تھی۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق زلمے خلیل زاد کے دورے کا مقصد بھارت کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ افغان حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے طالبان قیدیوں کی رہائی اور افغان امن عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کردار ادا کرے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ بھارت اب بھی افغانستان میں گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ طالبان کی جانب سے افغان حکومت کو تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود صدر اشرف غنی گھٹنے ٹیکنے اور اقتدار سے الگ ہونے پر آمادہ نہیں۔
بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کا طالبان کے خلاف ہمیشہ سے جارحانہ رویہ رہا ہے اور ان کی جانب سے ہمیشہ ہی طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کی حمایت کی گئی ہے لیکن حالات کی تبدیلی خصوصاً امریکا کے خطے سے ممکنہ انخلا کو دیکھتے ہوئے بھارتی حکام کے رویے میں تبدیلی بعید از قیاس نہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں امریکا میں پاکستانی سفیر اسد خان نے کہا تھا کہ اگر بھارت محسوس کرتا ہے کہ وہ افغان امن عمل میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے تو انہیں طالبان سے ضرور بات کرنی چاہیے۔