شوگر پرائس انکوائری کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے۔ مجھے کم از کم اس میں کوئی نئی یا حیرت کی بات نظر نہیں آئی۔ ہم تسلسل کے ساتھ یہ کہتے آئے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی جو شکل ہمارے ہاں رائج ہے اس میں کسی بھی بڑے بزنس یا پراجیکٹ کے آغاز سے انتہاء تک کے مراحل میں کرپشن ایک جزو لاینفک کی طرح موجود رہتی ہے۔ قابل قبول حد تک کرپشن دراصل اس نظام میں عمل انگیز کا کام دیتی ہے اور اس کے بغیر سسٹم میں ایفی شنسی حاصل کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ یہ اس نظام کا ساختیاتی مسئلہ ہے جسے تقریروں اور جذبات سے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ اگر شوگر سیکٹر میں گنے کی خریداری سے لے کر ایکسپورٹ سبسڈی تک مافیا کی کہانیاں ہی کہانیاں ہیں تو تھوڑا سا انتظار کریں اور پاور سیکٹر کی رپورٹ بھی سامنے آنے دیں۔ پاور سیکٹر میں اس سے بھی خوفناک کہانیاں ہیں کہ کس طرح ذاتی ایکویٹی شئیر کے نام پر کاغذی اثاثہ جات ظاہر کر کے مالیاتی اداروں سے فنانسنگ حاصل کی جاتی ہے اور کم معیار کی مشینری اوور ویلیو کر کے پاکستان میں منگوا کر پراجیکٹس لگائے جاتے ہیں۔ اس سب میں حکومت پاکستان کی دی گئی گارنٹیوں کی بنیاد پر پہلے دن ہی سے سرمایہ کار منافع جیب میں ڈالنا شروع کردیتے ہیں اور سسٹم آئے روز گردشی قرضوں کے گرداب میں پھنستا رہتا ہے۔ اتنا محفوظ سرمایہ کاری کا بزنس ماڈل مشکل ہی سے کسی دوسری انڈسٹری میں ملتا ہے۔
سیمنٹ کے کارٹلز کی کہانیاں بھی اس ملک میں نئی نہیں ہیں۔ اس سیکٹر کے کارٹلز پر مناپلی کنٹرول اٹھارٹی کے زمانے سے ہی رپورٹیں بنتی رہیں مگر آج تک یہ مافیا پوری سرگرمی سے مصروف عمل ہے اور کوئی اس مافیا کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرسکتا۔ مارکیٹ سیگمنٹیشن اور پرائس فکسیشن کے اسکنڈلز میں گھرا ہوا سیمنٹ سیکٹر سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال پر مبنی سرمایہ کاری کے ماڈل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آٹو موبائل سیکٹر کی من مانیوں کا شکار اس ملک میں ہر وہ شخص ہے جو آن کے کے نام پر گھٹیا کوالٹی کے کاروں کو خریدنے کا تجربہ کرچکا ہے۔ انتہائی ناقص کوالٹی کی گاڑیوں کو مہنگے داموں بیچنے والے اس مافیا کو بھی مقامی آٹو سیکٹر کے نام پر تحفظ دینے کی ایک پوری تاریخ ہے۔ جس دن کوئی جے آئی ٹی اس مافیا کے تحقیق کے لئے بیٹھ گئی تو آپ شوگر سیکٹر کو بھول جائیں گے۔
فارماسیوٹیکل سیکٹر کے بارے میں ہم گاہے بگاہے لکھتے رہتے ہیں کہ کس طرح بنیادی خام مال نہ بنانے کے باوجود چین اور انڈیا سے درآمد شدہ خام مال سے ہماری نام نہاد نیشنل فارماسیوٹیکل انڈسٹری ادوایات بناتی ہے اور بلند بانگ دعوے کر کے مریضوں کا استحصال کرتی ہے۔ حکومت پر ہر وقت قیمتوں میں اضافے کے لئے دباو ڈالا جاتا ہے۔ جنرک ادوایات بنانے والی یہ کمپنیاں بائیو ایکویلینس اسٹیڈیز کے بغیر ہی اپنی ادوایات رجسٹر کروا کر پورے ملک میں ڈاکٹروں اور میڈیکل ریپس پر مشتمل فوج ظفر موج کے بل بوتے پر اندھا دھند فروخت کرتی ہیں۔ اس مافیا کو بے نقاب کرنے کے لئے جس دن جی آئی ٹی بیٹھ گئی اس دن آپ شوگر والوں کو بھول جائیں گے۔ یہ تو محض چند مثالیں ہیں۔
آپ کسی بھی آرگنائزڈ سیکٹر کو لے لیں اور شروع ہوجائیں تو کرپشن’ لوٹ مار اور صارفین کے استحصال کی ایسی ایسی ہوشربا کہانیاں سامنے آئیں گی کہ آپ شوگر انڈسڑی کے مافیا کو بھول جائیں گے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کے صرف ریفنڈز کو ہی کھول لیں تو سر گھوم جائے گا۔ پراپرٹی سیکٹر کے مافیا کے سرخیل ملک ریاض سے تو ریاستی اداروں نے سپریم کورٹ کی سربراہی میں باقاعدہ این آر او کیا اور قبضہ مافیا کو قانونی تحفظ عطا کیا۔ کھاد کے کارخانے چلانے کے لئے گیس کی سبسڈی کس طرح دی جاتی رہی اور کھاد سیکٹر کے مافیا کو تحفظ کیسے دیا جاتا رہا ہے اس پر بات کرتے ہو پر جلنا شروع ہو جاتے ہیں۔سو کسی خوش فہمی کا شکار مت ہوں۔ یہ جن کی پگڑیاں اس وقت اچھل رہی ہیں ان کا جرم یقینا کچھ اور ہے۔ انہوں نے "رل مل” کر کھانے اور "انی پانے” کی انڈرسٹینڈنگ کی کہیں نہ کہیں خلاف ورزی کردی ہوگی۔ یا پھر پیسوں کے نشے میں طاقت کا نشہ شامل ہونے کے بعد زیادہ اونچی اوڑان بھرنے کی سعی لاحاصل کی ہوگی۔
یاد رکھیں مافیا کبھی مافیا کو نہیں ہاتھ ڈال سکتا۔ نئے مافیا کی تشکیل کو روکنے کے خلاف جھگڑے ضرور ہوتے ہیں۔ ہماری دانست میں یہ محض سرحدی جھڑپیں ہیں۔ کوئی ایک آدھ سر پھرا جسے اس نظام کے بنیادوں اصولوں کا احساس نہیں وہ شور ڈال کر وقتی ارتعاش پیدا کرسکتا ہے۔ یہ بس ایک اناملی ہے۔ کچھ دنوں میں دور کر لی جائے گی۔ کارپوریٹ مفادات کے اس نظام کے تحفظ کے ادارے بہت مضبوط ہیں اور ریاست کو اس کی رکھوالی پر مقرر کیا گیا ہے۔ نگرانی بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور ان کے خوشہ چیں کرتے ہیں۔ اتنی آسانی سے وہ مجھے اور آپ کو خوش نہیں ہونے دیں گے۔