’’میڈان پاکستان‘‘ نہیں جینوئن اور پشتینی راجپوت رانا ثنااللہ کا اور میرا تعلق نہ نیا ہے نہ ڈھکا چھپا۔پرویز مشرف صاحب کے اقتدار میں جب ن لیگ زیر عتاب تھی، رانا ثنااللہ کو اغوا کرکے تشدد کےبعد چھوڑ دیا گیا۔
مونچھیں مونڈنے والے نہیں جانتے تھے کہ اصل مونچھیں مرد کے اندر ہوتی ہیں۔ رانا کولگے زخموں کی جو تعداد رپورٹ ہوئی ان کی تعداد 21تھی ۔میں نے کالم لکھا جس کا عنوان تھا ’’21توپوں کی سلامی‘‘۔
دوسری طرف اس کھرے سچے راجپوت کی سن لیں جو دلیری اور دانائی کا عجیب کومبی نیشن ہے کہ ایک بار پھر جب ن لیگ اقتدار اور عروج کی معراج پر تھی ہم مسلسل ملتے رہے ۔
میں ن لیگ کی مخالفت میں کبھی کبھی حدود سےتجاوز بھی کر جاتا لیکن آفرین ہے اس گریس، رکھ رکھائو، سبھائو اور وضعداری کے کہ رانا نے کبھی اشارتاً بھی اس کا ذکر نہ کیا حالانکہ میں جانتا تھا کہ رانا صاحب کو پارٹی میں میرے حوالہ سے ’’آپ کا دوست ‘‘….’’آپ کا بھائی ’’ کہہ کر چیزے لئے جاتے تھے۔دوسری انتہا ملاحظہ ہو۔
میاں شہباز شریف کی مسلسل وزارت اعلیٰ کے دوران وقفے وقفے سے دہشت گردوں کے دو گروہ پکڑے گئے ۔دونوں کی ہٹ لسٹ میں میرا نام بھی شامل تھا ۔رانا ثنااللہ نے مجھ سے بالا بالا اپنے وزیر اعلیٰ کو اعتماد میں لیکر میری سیکیوریٹی کا بندوبست کیا۔تب میں اپنے فارم ہائوس ’’بیلی پور‘‘ میں رہتا اور مناسب ذاتی بندوبست کے ساتھ رہتا تھا لیکن رانا کا رشتہ تو رانا کا مسئلہ تھا ۔
دوسرے گینگ کی گرفتاری پر خود مجھے تفصیلی بریفنگ دی کہ فون پر اپنا پروگرام آمدورفت ڈسکس نہیں کرنا، گاڑیاں، رستے بدل کر جانا ہے، بلاضرورت نکلنے سے احتراز کرنا ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔
یہ اس حکومت کا اہم ترین وزیر قانون کر رہا تھا جس کے لتے لیتے رہنا میری ’’سیکنڈ نیچر‘‘ بن چکی تھی کیونکہ میں ’’تبدیلی‘‘ کے جنون میں مبتلا تھا حالانکہ ذاتی طور پر مدتوں سے مجھے کسی ’’تبدیلی‘‘ کی نہ کوئی خواہش تھی نہ ضرورت لیکن یقیناً میں وطن اور اہل وطن کیلئے کسی جوہری، حقیقی تبدیلی کا طلب گار تھا ۔
میرا ذاتی کام تو کیا ہونا ہے کوئی مظلوم انصاف یا مدد کیلئے آیا تو ’’ملا کی دوڑ مسیت تک‘‘کی روشنی میں رانا ثنااللہ کے سپرد کر دیا ۔کوئی ایک بھی ایسا یاد نہیں جس کی دادرسی نہ ہوئی ہو ۔یہ ہے وہ رانا ثنااللہ جس پر ہیروئن ڈالی گئی تو دکھ، غصہ ، مایوسی اور احتجاج میرے اعصاب پر طاری ہو گئے ۔ ٹی وی چینلز سے لیکر کالموں تک میری دلیل بہت سادہ تھی۔
میں جانتا تھا کہ شیر علی، عابد شیر علی فیملی کون ہے ؟ کیا ہے؟ اور ان کے اثرو رسوخ کا عالم کیا ہے ۔میں نے تکرار سے یہ بات کی کہ رانا ثنااللہ کی سب سے بڑی حریف فیملی نے بھی رانا ثنااللہ پر قتل جیسے سنگین ترین الزام تو لگائے اور سر عام لگائے لیکن منشیات جیسا مکروہ الزام تو انہوں نے بھی نہیں لگایا جبکہ منشیات جیسے دھندے تو چھپ ہی نہیں سکتے ۔
ایسی کسی بات کی معمولی سی افواہ بھی ہوتی تو بڑبولا عابد شیر علی رائی کا پہاڑ بناتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیتا۔رانا ثنااللہ کی گرفتاری پر رنج وملال میں غرق میں نے کئی بار سوچا کہ یہاں تو ’’تبدیلی‘‘ کی ’’ت‘‘ بھی نہیں آئی کیونکہ کل تک جو کچھ استاد دامن اور حبیب جالب جیسے درویشوں کے ساتھ ہوتا رہا، وہی کچھ آج رانا ثنااللہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔
رانا اپنی قسم کا تیزدھار درویش ہے جسے جیل میں بیٹھے ہوئے بھی اس بات کی فکر تھی کہ میرے کالموں میں موت کا ذکر کیوں بڑھتا جا رہا ہے اور مجھے اپنا خیال رکھنا چاہئے۔
رانا کا اصلی پرابلم یہ کہ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ’’راجپوت کی جب تلوار اٹھتی ہےتو دو میں سے ایک کاسر گرتا ہے‘‘۔اس کی دوستی بھی خالص، اس کی دشمنی بھی خالص اور میرے نزدیک پاکیزہ وہ ہے جو منافقت سے پاک ہو۔قارئین !یہ ساری باتیں رانا کے ایک تازہ ترین نجی ٹی وی انٹرویو میں کی گئی اس بات سے یاد آئیں کہ’’مجھ پر چرس نہیں ہیروئن ڈالی گئی۔
شکر ہے کہ بولنے والی نہیں خاموش ہیروئن ڈالی گئی کیونکہ اگر بولنے والی ہیروئن ہوتی تو پتا نہیں اس سے کیا کیا کہلوادیتے‘‘میں رانا ثنااللہ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر بولنے والی ہیروئن بھی ڈال دی جاتی تو مرتی مر جاتی لیکن اتنا ضرور کہہ جاتی کہ بندہ سو فیصد جینوئن اور جی دار ہے جسے منافقت نام کی کوئی شے کبھی چھوکر بھی نہیں گزری۔یہ تھڑدلوں، موقع پرستوں، سطحی رشتوں، بدلتے چہروں، شفٹ ہوتے معیاروں، کپڑوں سے زیادہ تبدیل ہونے والے بیانوں کا
بنجر زمانہ ہے جس میں وہ لوگ نایاب ہو چکے جو دوستیاں اور دشمنیاں نبھانا جانتے ہیں کہ جو تعلق نبھا سکتا ہے وہ کچھ بھی نبھانے کا حوصلہ اور ظرف رکھتا ہے ۔جس میں وفا نہیں، اس میں حیانہیں اور جس میں حیا نہیں اس میں کچھ بھی نہیں ۔
وہ 12اکتوبر کے بعد بھی پورے قد کے ساتھ کھڑا تھا اور آج بھی کھڑا ہے۔ROOSEVELTنے کہا تھا۔”IT IS BETTER TO BE FAITH FUL THAN FAMOUS”اور غالب کہتے ہیں ۔’’وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے‘‘ایسا تو دشمن بھی ہو تو اس کی عزت کرنی چاہئے لیکن اس کے لئے بھی اک خاص قسم کی تربیت چاہئے۔
اور آخری بات یہ کہ جہاں ہیرو ہوگا وہاں ہیروئن تو ہوگی،چاہے گونگی ہو یا بولنے والی!
بشکریہ روزنامہ جنگ