تاریخ، جغرافیہ، مذہب، معاشیات اور طب کے موضوع پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ’نادر فرمودات‘ کے ذریعے عوام الناس کو حیران تو کیا ہی تھا لیکن اب ان کے وزراء نے بھی اپنی حکومت پر خودکُش حملہ کر دیا ہے۔
سچ پوچھیں تو پاکستان میں جمہوریت کی کشتی ایک بار پھر ڈوبتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اتحادی ناراض ہیں، وزراء آپس میں زبانی طور پر دست و گریباں ہیں، انہیں منتخب کرنے والے پریشان ہیں، ایسے میں خود خان صاحب بھی اپنے آپ کو ناقابل تسخیر ہونے کا مصنوعی تاثر دے رہے ہیں۔
ان تمام عوامل نے ملک میں ایک سیاسی ہیجان پربا کر دیا ہے۔ لوگوں سے کم از کم تعلق رکھنے والے عمران خان نے اپنے ارکان قومی اسمبلی سے خلوت میں ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ ترقیاتی فنڈز کی یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں اور ان کے اعزاز میں عشائیے دیے جا رہے ہیں۔
یہ سارےناز نخرے اٹھانے کے باوجود کپتان کی حکومت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اُن کو لانے والے پریشان نظر آرہے ہیں بلکہ ن لیگ نے بھی جج ارشد ملک کی برطرفی کے بعد لڈیاں ڈالنا شروع کر دی ہیں۔
گوشہ ء تنہائی میں اچھا خاصہ وقت گزارنے والی مریم نواز شریف اچانک سوشل میڈیا پر سرگرم ہو گئی ہیں۔ بلاول بھٹو نے پنجاب میں سرگرمیاں تیز کر دیں ہیں، جب کہ مولانا فضل الرحمان بھی متحرک ہو گئے ہیں۔
ان حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کئی سیاسی پنڈت ملک میں سیاسی تبدیلیوں کی پیشن گوئیاں کر رہے ہیں اور کئی باشعور سیاسی کارکان ایک نئے میثاق جمہوریت کی بات کر رہے ہیں، جس کا مقصد صرف چند خاندانوں کی سیاست اور وراثت کو بچانا نہ ہو بلکہ اس میں سویلین برتری کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو ملک میں مضبوط کرنے کا ایک واضح روڈ میپ ہو تاکہ سیاسی عمل میں نہ صرف ‘خلائی مخلوق‘ کی مداخلت مستقل بنیادوں پر ختم ہو بلکہ ‘جمہوریت‘ کے آنے سے اس ملک کے کروڑوں عوام کو بھی فائدہ ہو۔
سیانے کہتے ہیں کہ اس نئے میثاق جمہوریت کا محور اس ملک کی دبی ہوئی مخلوق ہونی چاہیے، جسے حرف عام میں عوام کہا جاتا ہے۔ یہ میثاق عوامی مسائل کے حل کے لئے ایک واضح پروگرام دے۔ ملک میں چھ کروڑ سے زائد افراد غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کرونا کی وباء سے اس تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ڈھائی کروڑ کے قریب بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ چالیس فیصد سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اسی فیصد عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، جس سے ہیپاٹائٹس سمیت کئی امراض نے ان کو گھیرا ہوا ہے۔
سڑسٹھ فیصد عوام کے سروں پر پکی چھت نہیں ہے۔ ایک کروڑ سے زائد بچے جبری مشقت کا شکار ہیں۔ ہزاروں خواتین کو ہر سال غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے یا جنسی زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ لوگ غربت کی وجہ سے اپنا خون، اپنے گردے اور یہاں تک کے اپنے بچے بھی بیچ رہے ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد بھٹہ مزدور اپنے گھرانوں کے ساتھ جدید غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ عوام دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس نئے میثاق جمہوریت میں بلاول بھٹو، مریم نواز اور دوسرے عوامی فلاح کے دعویدار کیا کرتے ہیں؟
پاکستانی جمہوریت کو کئی ناقدین خاندانی اور وراثتی سیاست کا عکس قرار دیتےہیں۔ نئے میثاق جمہوریت میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سیاست پر خاندانوں کی اجارہ داری ختم ہو۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات ہوں، سیاسی فیصلوں کا حق نواز، زرداری، مریم یا بلاول کو نہ ہو بلکہ ہر پارٹی کی مرکزی کمیٹی یہ فیصلہ کرے کہ اس کو کونسا سیاسی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے اور کس سیاسی مسئلے پر کونسا موقف اختیار کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو فیصلہ ساز اداروں کے ان فیصلوں کو ماننا چاہیے۔
سیاسی جماعتوں کو ننانوے فیصد ٹکٹس اپنے کارکنان کو دینے چاہییں۔ ایک ہی خاندان سے مختلف افراد کی نامزدگی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ تمام جماعتیں خواتین کو آبادی کے تناسب سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی نشستیں دیں اور بلدیاتی اداروں میں بھی خواتین کی نشستیں ان کی آبادی کے تناسب سے ہونی چاہییں۔
خواتین کو دس فیصد یا بائیس فیصد نشتوں کی خیرات نہیں چاہیے بلکہ انہیں بھی مردوں کی طرح سیاسی جماعتیں مضبوط حلقوں سے نامزد کریں اور اگر ان کی آبادی میں شرح پچاس فیصد کے قریب ہے تو انہیں نشتیں بھی اسی حساب سے دی جائیں۔
دنیا میں جمہوریت مقامی حکومتوں کی مضبوطی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی حکومتیں آمر بن گئی ہیں اور وہ ضلعوں کو نو آبادیاتی مجسٹریٹی نظام کے تحت چلانا چاہتی ہیں۔ اس میں جمہوریت پسند پی پی پی ہو یا نام نہاد خادم اعلیٰ، دونوں نے ہی بادشاہوں کی طرح ضلعوں کو چلایا۔ پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی کہ یہاں زیادہ تر بلدیاتی انتخابات فوجی آمروں نے کرائے۔ نئے میثاق جمہوریت میں صوبے کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ضلعوں اور تحصیلوں کے لئے مختص کریں۔
تعلیم، صحت، پولیس اور نکاسی آب سمیت کئی محکمے بلدیاتی اداروں کے پاس ہونے چاہییں۔ یہ عجیب بات ہے کہ بلاول سمیت قومی سطح کے کئی رہنماوں نے برطانیہ یا مغرب سے تعلیم حاصل کی، جہاں بلدیاتی نظام انتہائی طاقتور ہے لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سیاست دان جاگیردارانہ سوچ سے باہر نہیں نکل پا رہے اور وہ بلدیاتی اداروں کو ایک فیوڈل لارڈ کی طرح چلا رہے ہیں۔
پاکستان کی اسمبلی میں مزدوروں اور کسانوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ تین سو سے زائد ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی میں ایک بھی رکن ایسا نہیں، جو کم از کم لکھ پتی نہ ہو۔ ایک بڑی تعداد کروڑ پتیوں اور ایک مخصوص تعداد ارب پتیوں کی ہے۔ نئے میثاق جمہوریت میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دونوں ایوانوں میں مزدوروں اور کسانوں کی ایک مناسب نمائندگی ہو۔ اگر ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو ایک نئے میثاق جمہوریت کو لانا ہو گا اور اس کو عوامی منشاء کے تابع کرنا ہو گا۔