اسلام دنیاوی ترقی یا مادی آسائشوں کے حصول کی نفی نہیں کرتا بلکہ حلال ذرائع سے مال کے حصول کو عبادت قرار دیتا ہے، اسلام نے اس حوالے سے اخلاقی ضابطہ مقرر کیا جو کہ عین فطری ہے اور معاشرتی فلاح کا ضامن ہے۔
معاشی ترقی میں مردوزن دونوں کے کردار کو انتہائی اہم، ناگزیر اور فعال قرار دیا گیا ہے، لیکن دونوں کے کردار کی نوعیت مختلف رکھی،مرد کو وراثت میں دوگنا حصہ دیا اور اس برتری پراسےاس کے اہلِ خانہ کے نان و نفقہ کا پابند بھی قرار دیا جبکہ عورت کو آدھا حصہ دے کر نان و نفقہ کی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی ایسی کوئی پابندی عائد کی گئی کہ عورت اپنے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے معاشی سرگرمیاں سرانجام نہیں دے سکتی۔اسلام نے معاشی توازن کو پیدا کرنے کے لیے جو اصول طے کیے، ان میں خواتین کے معاشی حقوق بہت اہم ہیں جو کہ عورت کو معاشی خودمختاری اور آسودگی فراہم کرتے ہیں ، مثلاً نان و نفقہ، وراثت کا حق ، حق مہر، عدت میں بھی نان و نفقہ کا حق وغیرہ، یہ تمام حقوق فراہم کرکے عورت سے یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں قرار پکڑے، پھر چاہے عورت اس مال کے تصرف کا مکمل اختیار رکھتے ہوئے اسے ذاتی کاروبار میں استعمال کرے، صدقہ کرے، کسی کو قرض دے، مضاربت میں استعمال کرے، اپنی زمینوں کی خریدو فروخت کرے یا اپنی پراپرٹی کو کرائے کے لیے دے، ایسے فیصلوں میں عورت کو مکمل آزاد قرار دیا اور کسی مرد کے لیے اس مال کے حصول میں رکاوٹ بننا یا ایموشنل بلیک میل کرکے اسے حاصل کرنا جائز نہیں ،عورت کی معاشی خود مختاری، رعایت اور اس آزادی کا مقصد معاشی و معاشرتی توازن کو برقرار رکھنا ہے ناکہ مرد کے لیے تنگی پیدا کرنا۔
ہمارے معاشی مسائل کا ایک سبب اس توزان میں بگاڑ کا ہونا بھی ہے، جہیز، ونی،غیرت کے نام پر قتل، قرآن سے نکاح، بیٹے بیٹی کے درمیان تفریق، تعلیم سے محرومی، صحت کے مسائل،نوجوان لڑکیوں کے مسائل، گھریلو ناچاقیاں،جسمانی اور ذہنی تشدد، حقِ وراثت و حق مہر کی عدم ادائیگی، بیوہ و مطلقہ خواتین کے مسائل ،مرد کا غیر زمہ دارانہ رویہ اور اس جیسے بہت سے چیلنجز ہیں جن کا عورت کو سامنا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے اس معاشرے کی عورت اپنے گھر کا سکون چھوڑ کر سڑکوں پر نوکریوں کی تلاش میں ہے، بغاوت اور خود سری کا نمونہ بن چکی ہے اور عدل و انصاف کا مطالبہ کر رہی ہے،جبکہ ہمیں ان حقوق کی ادائیگی کی بجائے معاشرے میں فحاشی و عریانی کی فکر لاحق ہے۔
اگرچہ اس وقت حقوقِ نسواں کے حوالے سے قانون سازی بھی جاری ہےاور ان قوانین پر عملدرآمد کی کوشش بھی ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود بغاوت میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب مظلوم عورتیں انصاف کے لیے آواز بلند کرتی ہے تو انہیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے، یہاں تک کہ انصاف کے حصول کے لیے نکلنے والیاں عدالت کے دروازے پر پہنچنے سے پہلے یا تو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں یا قتل کر دی جاتی ہیں اور پھر ان کی جائیدادیں نسل در نسل مردوں ہی میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں۔
اگر خواتین کو وراثت سے اپنا حصہ حاصل ہو بھی جاتا ہے تو اس پر نظریں جمائے دیگر مرد رشتہ دار اپنی ضروریات کے لیے مال کا تقاضا کرنے لگتے ہیں، درحقیقت سماجی و معاشی توازن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب مرد اور عورت دونوں ہی اللہ کی قائم کردہ زمہ داریوں سے بغاوت کی بجائے انہیں نبھانے کی کوشش کریں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مرد اور عورت میں تعاون کی ایسی راہ نکالی جائے کہ دونوں کے باہمی تعاون سے معاشرے خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکیں اور اس کے لیے مرد و زن اپنی ضروریاتِ زندگی کے مطابق، اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔
اسلام نے گھر کو معاشرے کے لیے بنیادی اکائی قرار دیا ہے، اس اکائی کی مضبوطی پر پورے معاشرے کی مضبوطی کا انحصار ہے۔معاشرے میں ہونے والی ہر ناانصافی کا اثر عورت پر پڑتا ہے اور اس عورت سے پیدا ہونے والا مرد بھی اس نا انصافی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، عورت ذہنی یا جسمانی طور پر بے سکون ہو تو وہ اپنے فرائض ٹھیک سے سرانجام نہیں دے سکتی، اس کی گود میں پرورش پانے والی اولاد بھی باغی شہری کے طور پر معاشرے میں منفی کردار ادا کرتی ہے۔
مختصراً یہ کہ اگر معاشی توازن پیدا کرنا ہے تو عورت کا حق مہر خوشدلی سے بر وقت ادا کرنا ہوگا، نان و نفقہ کی ادائیگی حلال ذرائع سے کرنی ہوگی، عورت کو برقت جائیداد میں حصہ دینا ہوگا، چاہےوہ کئی ایکڑ اراضی ہو، یا چند روپے، عورت کے وارثتی حصہ کے حوالے سے کوئی بھی مرد رشتہ دار اس کا منتظر نہ ہو اور اس کے حصول کےبعد سینہ تان کر یہ مطالبہ نہ کرے کہ اس مال سے ان کے گھر یا کاروبار کو وسعت دی جائےیا ویزہ لگوا کر انہیں بیرونِ ملک سیٹ کروایا جائے، عورت کو مکمل اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی رضامندی اور خوشی سے، جہاں چاہے اپنا مال خرچ کرے، جب اسے یہ فطری آزادی مہیا ہوگی تو یقیناًسب سے پہلے وہ اپنوں کا ہی سوچے گی اور بغاوت کے راستے سے پلٹ کر واپس آئے گی اور مرد کو عزت دے گی۔