لیبیا کے مسلح تنازع میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے انتہائی منافع بخش تجارتی سودے حاصل کرنے کا موقع پا لیا۔ ان سودوں کو ترکی کی کمپنیوں کے سپرد کر دیا گیا جن میں ایردوآن کے خاندان کے افراد اور ترکی کے صدر کے مقرّب افراد کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
انقرہ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ طرابلس میں وفاق حکومت کے ساتھ سمجھوتوں کے ذریعے لیبیا میں منصوبوں کے بڑے حصے کو ترک کمپنیوں کو نواز دے۔ ان میں تعمیرات اور توانائی کے شعبے خاص طور پر شامل ہیں۔
اس سلسلے میں تازہ ترین اقدام منگل کے روز سامنے آیا جب فائز السراج کے زیر قیادت وفاق حکومت کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں لیبیا میں ترکی کی سرمایہ کاری اور ترک کمپنیوں کی واپسی پر بات چیت ہوئی۔ اس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان موقوف منصوبوں کا دوبارہ شروع کرنا ہے۔
اجلاس کے بعد بعض ترک کمپنیوں نے لیبیا کا رخ کرنے کا اعلان کر دیا تا کہ وہاں اپنے کام کا آغاز کر سکیں۔
لیبیا میں کام کرنے والی یا کام کے لیے منصوبہ بندی کرنے والی سب سے بڑی کمپنیوں کی شناخت پر گہری نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کمپنیوں کی ملکیت ایردوآن کے خاندان یا ان کی قریبی کاروباری شخصیات اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کے پاس ہے۔
ایردوآن کے دو داماد ہیں جو لیبیا میں سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں ایک داماد "بيرات بيرق” ترکی کا موجودہ وزیر خزانہ اور سابق وزیر توانائی ہے۔ دوسرا داماد "سلجوق پیر قدار” ڈرون طیاروں کی کمپنی کا مالک ہے۔ یہ کمپنی لیبیا کو ڈرون طیارے برآمد کرتی ہے۔
پیرقدار نے لیبیا کے تنازع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی فروخت کو مضبوط بنایا اور لیبیا میں وفاق حکومت کے ساتھ اربوں ڈالروں کے مالی سمجھوتے حاصل کر لیے۔ ان سمجھوتوں کی بدولت لیبیا میں وفاق حکومت نے "پیرقدار ٹی بی 2” ساخت کے درجنوں ڈرون طیارے حاصل کیے۔
ایردوآن کا دوسرا داماد بیرات بیرق ترکی کے سیاست دان صادق بیرق کا بیٹا ہے۔ صادق بیرق جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے رکن اور ایردوآن کے ایک قریبی عزیز ہیں۔ بیرق کو بعض حلقے ایردوآن کی سیاسی پرچھائی اور ایک ایسا کارڈ قرار دیتے ہیں جس پر ترکی کے صدر کو انتہائی اعتماد ہے۔ بیرق بھی لیبیا میں کاروباری سمجھوتوں کے حوالے سے کافی سرگرم ہیں۔
سال 2016ء میں ایردوآن کے داماد پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے داعش تنظیم کے زیر قبضہ علاقوں میں تیل کی تجارت کی۔ اس وقت برطانی اخبار دی انڈیپینڈینٹ نے انکشاف کیا تھا کہ اس بات کے قوی شواہد موجود ہیں کہ بیرق کے ایک ترک کمپنی کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ اس کمپنی پر داعش تنظیم سے تیل خریدنے کا الزام ہے۔ واضح رہے کہ 2015ء اور 2016ء کے درمیان داعش تنظیم شام اور عراق میں تیل کے متعدد کنوؤں پر قابض تھی۔
لیبیا میں سرمایہ کاری میں اضافے اور نئے سمجھوتے حاصل کرنے کی خواہش مند نمایاں ترین کمپنیوں میں سے "چنگیز انسیٹ” شامل ہے۔ اس مالک ایردوآن کا ایک مقرب تاجر اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کا رکن محمد چنگیز ہے۔ ایک سال قبل اس کمپنی نے لیبیا کی ریاست کے خلاف عالمی فوجداری عدالت کے ذریعے فیصلہ حاصل کر لیا تھا۔ اس کے مطابق لیبیا کو 2011 سے قبل طے پائے گئے سمجھوتوں کے عوض اس کمپی کو 5 کروڑ یورو کی رقم ادا کرنا تھی۔
اس کمپنی نے لیبیا میں بالخصوص جنوبی شہروں میں سیاحتی مقامات، بندرگاہیں، ہوائی اڈے، راستوں اور پلوں کی تعمیر میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ اس کے علاوہ کمپنی نے پانی کا ڈیم اور دیگر رہائشی جائیداد بنانے کا بھی کام انجام دیا۔
اسی طرح بین الاقوامی دفاعی مشاورت کی ترک کمپنی "سادات” نے بھی لیبیا میں سرمایہ کاری کی۔ اس کمپنی کو عدنان تینری فردی چلا رہا ہے۔ وہ ایک ریٹائرڈ میجر جنرل ہے جس کے ماضی مین ایردوآن کے ساتھ نہایت مضبوط تعلقات رہے ہیں۔ وہ اس وقت ایردوآن کے ایک عسکری مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کمپنی نے شامی اجرتی جنگجوؤں اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کو لیبیا پہنچانے، ان کی عسکری تربیت کے بعد ہتھیاروں کی فراہمی اور انہیں وفاق حکومت کے زیر انتظام مسلح ملیشیاؤں کے ہمراہ کرنے کی کارروائیوں کی نگرانی بھی کی۔
یہ کمپنی آئندہ عرصے میں لیبیا میں اپنی سرگرمیوں میں اضافے اور مزید سمجھوتے حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔