چند دن قبل علامہ شامی کے بے مثال رسالے "تنبیہ الوُلاۃ و الحکام” کے انگریزی ترجمے کی توفیق ملی۔ اس رسالے میں علامہ شامی نے رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کی شان میں گستاخی پر اسلامی احکام کی تفصیلی توضیح کی ہے۔ ذیل میں ان کی تحقیق کے اس حصے کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے جو صحابۂ کرام کی شان میں گستاخی کے متعلق ہے۔
صحابۂ کرام کے ساتھ محبت ایمان کا لازمی حصہ ہے۔
سب سے پہلے علامہ شامی نے واضح کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد اس امت کے افضل ترین افراد آپ کے صحابہ ہیں؛ ان سے محبت ایمان کا لازمی جزو ہے؛ ان کا احترام واجب ہے؛ ان کی شان میں گستاخی سنگین گناہ ہے؛ اور ان کے باہمی اختلافات کے متعلق خاموشی کی راہ اختیار کرنی چاہیے کیونکہ ان کا اختلاف اجتہاد پر مبنی تھا:
اعلم – أرشدني الله و إيّاك و تولّى هُداي و هُداك – أن أفضل الأمة بعد نبيها ﷺ : أصحابه الذين نصروه و بذلوا مهجهم في مَرَضاتِه ؛ و ليس من مؤمن ولا مؤمنة إلا و لهم في عنقه أعظم منةً . فيجب علينا تعظيمهم و احترامهم ؛ و يَحرُم سبّهم و الطعن فيهم ؛ و نَسكُت عمّا جرى بينهم من الحروب ؛ فإنه كان عن اجتهاد . هذا كله مذهب أهل الحق ، و هم أهل السنة و الجماعة . و هم الصحابة و التابعون و الأئمة المجتهدون . و من خرج عن هذا الطريق ، فهو ضالّ مبتدع أو كافر.
اس کے بعد انھوں نے صحابۂ کرام کی شان میں گستاخی کی مختلف نوعیتوں پر سزا کے متعلق مالکی، شافعی و حنبلی فقہاے کرام کا موقف نقل کیا ہے اور پھر متاخرین حنفی فقہاے کرام کے اقوال نقل کیے ہیں۔ پھر وہ واضح کرتے ہیں کہ متاخرین کے یہ اقوال حنفی اصولوں کی روشنی میں اپنے ظاہر پر قبول نہیں کیے جاسکتے بلکہ ان پر بہت سی قیود اور شروط ہیں جن کا بیان ضروری ہے۔ چنانچہ وہ ایک ایک کرکے مختلف نوعیتوں کی گستاخی کا حکم واضح کرتے ہیں اور دکھاتے ہیں کہ اصولوں کی روشنی میں ان کا درست حکم کیا بنتا ہے؟
کیا شیخین کی شان میں گستاخی کرنے والا کافر ہے؟
کئی متاخرین حنفیہ نے فتاوی میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کرنے والا کافر ہے۔ علامہ شامی واضح کرتے ہیں کہ اس پر ایک تو یہ قید ضروری ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب گستاخی کرنے والا اس فعل کا ارتکاب اس کو حلال قرار دے کر کرے کیونکہ حرامِ قطعی کو حلال کہنے والا کفر کا مرتکب ہوتا ہے لیکن اسے حلال قرار دیے بغیر اس کا ارتکاب کرنے والا گنہگار اور فاسق ہوتا ہے:
و ينبغي تقييد القول بكفر من سبّ الشيخين بكونه فعله مستحلاً ، كما تقدّم في كلام ابن تيمية و ابن حجر . و يدلّ عليه أن صاحب الخلاصة صوّره في الرافضيّ ، فإنّ الرافضيّ يستحلّ ذلك ؛ و لا شكّ أن الشتم و اللعن محرَّمان ؛ و أدنى مراتبهما : أنهما غيبة ؛ و الغيبة محرّمة بنصّ القرآن ؛ فيكون قد استحلّ ما جاء القرآن بتحريمه . و أيضاً انعقد إجماع أهل السنة و الجماعة الذين هم أهل الإجماع على حرمة سبّ الشيخين و لعنهما ؛ و صار ذلك مشهوراً بحيث لا يخفى على أحدٍ من خواصّهم و عوامّهم ، فيكون معلوماً من الدين بالضرورة ؛ كحرمة الزِّنا و شرب الخمر . و لا شكّ في كفر مستحلّ ذلك . و على هذا ، فالذي يظهر أنه لا فرق بين سبّ الشيخين أو غيرهما ممّن علم كونه من الصحابة قطعاً ؛ كما لو كان السبّ لجملة الصحابة رضي الله تعالى عنهم .
اس کے بعد وہ دوسری قید یہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ گستاخی کسی ایسی تاویل کی بنا پر نہ ہو جو ، چاہے فاسد ہی ہو، لیکن گناہ کو کفر کے فتوے سے بچاسکے۔ چنانچہ تاویل ہی کی بنا پر اہل سنت نے بالعموم خوارج کی تکفیر سے گریز کیا ، حالانکہ وہ سیدنا علی کرّم اللہ وجہہ کی شان میں گستاخی کرتے بلکہ ان سمیت کئی کبار صحابہ کی تکفیرکرتے تھے :
و لكن ينبغي تقييده بما إذا لم يكن السبّ عن تأويل ، كسبّ الخوارج لعلي رضي الله تعالى عنه، بناءً على ما هو المشهور من عدم تكفير أهل البِدَع لبناء بدعتهم على شبهة دليلٍ و تأويلٍ .
اس کے بعد متن المختار سے عبارت نقل کرکے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ چاہے کسی بھی صحابی کی شان میں گستاخی کرنے والا اگر کسی تاویل کی بنا پر کررہا ہو تو خواہ تاویل فاسد ہی ہو، اسے کافر نہیں کہا جائے گا لیکن بعض مقامات ایسے ہیں جہاں تاویل سرے سے ناقابلِ قبول ہوجاتی ہے اور اس وجہ سے ان مقامات پر گستاخی کو باعثِ کفر قرار دیا جائے گا ، جیسےام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر گستاخی اگر اس الزام پر مبنی ہو جس سے قرآن نے ان کی براءت کا اعلان کیا ہے، تو یہ کفر ہے کیونکہ یہ قرآن کا انکار ہے ۔ اسی طرح سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار بھی قرآن کا انکار ہونے کی وجہ سے کفر ہے کیونکہ قرآن نے آپ کو رسول اللہ ﷺ کا صاحب کہا ہے (اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا) ۔ اسی طرح یہ کہنا کہ جبریل علیہ السلام سے وحی لانے میں غلطی ہوئی، کفر ہے کیونکہ یہ قرآن کا اور پورے دین کا انکار ہے :
ففي هذا الكلام الجزم بعدم كفر الخوارج و دلالةٌ صريحةٌ على أن السبّ إذا كان عن تأويلٍ، و لو فاسداً ، لا يُكفَّر به ، و على أن كلّ واحدٍ من الصحابة في هذا الحكم سواء؛ و على أن البدعة التي تُخالِف الدليل القطعيّ الموجِب للعلم ، أي الاعتقاد و العمل ، لا تُعتبَر شُبهةً في نفي التكفير عن صاحبها ؛ كما لو أدّته بدعته إلى قذف عائشة بما برّأها الله تعالى منه بنصّ القرآن القطعيّ ، أو إلى نفي صحبة الصديق الثابتة بالقرآن ، أو إلى أنّ جبريل غلط في الوحي، و أشباه ذلك.
کیا دیگر امہات المؤمنین کی شان میں گستاخی کرنے والا کافر ہے؟
اسی اصول پر مزید بنا کرتے ہوئے علامہ شامی واضح کرتے ہیں کہ دیگر امہات المؤمنین کی شان میں گستاخی کا یہ حکم نہیں ہوگا کیونکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں اس مخصوص نوعیت کی گستاخی تو تب کفر ہوا جب قرآن نے آپ کی براءت کا اعلان کیا اور اس کے بعد اس کا انکار قرآن کی نصِ قطعی کا انکار ہوا ۔ اگر شروع سے ہی یہ کفر ہوتا تو جن بعض صحابہ سے بھی یہ غلطی ہوئی تھی، ان کو قذف کی سزا دینے کے بجاے ارتداد کی سزا دی جاتی:
أقول : و قيّد بقذف عائشة رضي الله عنها احترازاً عن قذف غيرها من الزوجات الطاهرات تبعاً، لما قدّمناه عن التتارخانية لأنّ قذفها تكذيبٌ للكتاب العزيز؛ بخلاف قذف غيرها . و قد تقدّم في كلام القاضي عياض و ابن تيمية ترجيح عدم الفرق لما فيه من إلحاق الشين به ﷺ. و الذي يظهر لي أرجحيّة ما ذكره أئمتنا بدليل أن من وقع في الإفك من الصحابة كمسطح و حسّان رضي الله عنهما ، لم يُحكَم بكفره ؛ بل عاتب الله تعالى الصديق رضي الله تعالى عنه على حلفه أن لا يُنفِق على مسطح بقوله تعالى : ﴿وَلَا يَأۡتَلِ أُوْلُواْ ٱلۡفَضۡلِ مِنكُمۡ﴾ (النور: 22) فيُعلَم منه أن نفس قذف السيدة عائشة قبل نزول القرآن ببرائتها لم يكن كفراً ؛ فأمّا بعده، فإنّما صار قذفها كفراً لما فيه من تكذيب القرآن . و هذا ممّا اختصت به على سائر الزوجات الطاهرات . هذا ما ظهر لي حال الكتابة . و الله تعالى أعلم .
اس کے بعد وہ منیۃ المصلّی کی شرح سے، جو علامہ ابراہیم حلبی نے لکھی تھی ، درج ذیل عبارت نقل کرتے ہیں جو اس باب میں صریح ہے کہ بعض نوعیت کی گستاخیاں سخت قابلِ گرفت ہونے کے باوجود چونکہ تاویل پر مبنی ہوتی ہیں ، تو ان کے مرتکب کو کافر نہیں کہا جاسکتا، خواہ وہ تاویل ہمارے نزدیک فاسد ہو:
و على هذا يجب أن يُحمَل المنقول ، أي عن أبي حنيفة و الشافعيّ ، من عدم تكفير أهل القبلة على ما عدا غُلاة الروافض و من ضاهاهم ، فان أمثالهم لم يحصل منهم بذل وسع في الاجتهاد ؛ فإنّ من يقول : إنّ عليّاً هو الإله ، أو بأنّ جبريل غلط ، و نحو ذلك من السّخف ، إنما هو متّبعُ مجرّد الهوى ، و هو أسوأ حالاً ممّن قال : ﴿ مَا نَعۡبُدُهُمۡ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلۡفَىٰٓ ﴾ (سورة الزمر : 3) فلا يتأتّى من مثل الإمامين العظيمين ، أي أبي حنيفة و الشافعي ، أن لا يحكم بأنهم من أكفر الكَفَرَة . و إنّما كلامهما في مثل من له شبهةٌ فيما ذهب إليه ، و إن كان ما ذهب إليه عند التحقيق في حدّ ذاته كفراً ، کمنكر الرؤية و عذاب القبر و نحو ذلك . فإن فيه إنكار حكم النصوص المشهورة و الإجماع ، إلا أنّ لهم شبهة قياس الغائب على الشاهد ، و نحو ذلك ممّا علم في الكلام ؛ و كمنكر خلافة الشيخين و السابِّ لهما ، فإنّ فيه إنكار حكم الإجماع القطعيّ ، إلا أنهم ينكرون حجيّة الإجماع باتهامهم الصحابة ؛ فكان لهم شبة في الجملة ، و إن كانت ظاهرة البطلان بالنّظر إلى الدليل . فبسبب تلك الشبهة مثل التي أدى إليها اجتهادهم ، لم يحكم بكفرهم ، مع أن معتقَدهم كفر ، احتياطاً ، بخلاف مثل من ذكرنا من الغُلاة . فتأمّل .
پھر اس اقتباس کی تائید کرتے ہوئے نتیجہ نکالتے ہیں کہ جو لوگ سیدنا علی کرّم اللہ وجہہ کو خلافت کا مستحق مان کر اس بنا پر شیخین یا صحابہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں انھوں نے سیدنا علی کرّم اللہ وجہہ کا حق چھینا، تو اس تاویل کی بنا پر ان کی اس گستاخی کو کفر نہیں کہا جائے گا، خواہ ہمارے نزدیک یہ تاویل غلط ہو:
و هو تحقيق ، بالقبول حقيقٌ ، و به يتحقق ما ذكرناه من التوفيق . و حاصله أن المحكوم بكفره : من أدّاه هواه و بدعته إلى مخالفة دليل قطعيّ لا يسوغ فيه تأويل ، أصلاً ، كردِّ آيةٍ قرآنيةٍ أو تكذيب نبيّ أو إنكار أحد أركان الإسلام ، و نحو ذلك ؛ بخلاف غيرهم ، كمن اعتقد أن عليّاً هو الأحقّ بالخلافة ، و صاروا يسبّون الصحابة لأنهم منعوه حقه ، و نحوهم فلا يُحكَم بكفرهم ، احتياطاً ، و إن كان معتقَدهم في نفسه كفراً ، أي يكفر به من اعتقده بلا شبهة تأويلٍ .
کیا ایسے لوگوں کی گواہی قابلِ قبول ہے؟
علامہ شامی مزید واضح کرتے ہیں کہ سلف، یعنی صحابہ، تابعین اور ائمہ مجتہدین ، کی گستاخی کرنے والوں کی شہادت کو فقہاے کرام نے قبول کیا ہے ، سواے خطابیہ کے، اور اس آخری گروہ کی شہادت مسترد کرنے کی وجہ ان کی گستاخی نہیں بلکہ ان کا یہ موقف تھا کہ وہ جھوٹ کو جائز سمجھتے تھے:
و ممّا يزيد ذلك وضوحاً ما صرّحوا به في كتبهم متوناً و شروحاً من قولهم : و لا تُقبَل شهادة من يُظهِر سبّ السلف ؛ ثم قالوا : و تُقبَل شهادة أهل الأهواء ، إلا الخطّابيّة ؛ و فسّرُوا السلف بالصالحين منهم ، كالصحابة و التابعين و الأئمة المجتهدين . فقد صرّحُوا بقبول شهادة أهل الأهواء ؛ و لو لم يكونوا مسلمين ، لَما قُبِلت شهادتهم . و إنّما أخرجوا الخطّابيّة لأنهم فرقةٌ يرون شهادة الزور لأشياعهم أو للحالف ؛ فالعلّة فيهم تهمة الكذب ، لا الكفر.
البتہ اگر کوئی یہ گستاخی علانیہ کرتا ہے تو اسے گواہی کےلیے نااہل مانا جائے گا کیونکہ اس کا یہ فعل اس کی عقل کی ناپختگی اور کردار کی کمزوری کو واضح کرتا ہے، نہ کہ یہ عمل کفر ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں وہ علامہ زیلعی کی شرح الکنز سے یہ عبارت نقل کرتے ہیں:
أو يُظهِر سبّ السلف ، يعني الصالحين منهم ، و هم الصحابة و التابعون ، لأن هذه الأشياء تدلّ على قصور عقله و قلّة مروءته ؛ و من لم يمتنع عن مثلها ، لا يمتنع عن الكذب عادةً ؛ بخلاف ما لو كان يُخفىِ السبّ .
اسی طرح وہ محدثین کی عبارات نقل کرتے ہیں جن میں انھوں نے اس کی روایت کی قبولیت کا بھی اقرار کیا ہے اور ظاہر ہے کہ دین کے معاملے میں کافر کی روایت ناقابلِ قبول ہوتی ہے تو روایت کی قبولیت عدم کفر کی دلیل ہے ۔
کیا ایک صحابی کی تکفیر اور سب صحابہ کی تکفیر برابر ہیں؟
اس موڑ پر آکر علامہ شامی یہ سوال اٹھاتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ خواہ کسی خاص صحابی کی تکفیر کی بنا پر کسی کو کافر نہ کہا جاسکے لیکن فی الجملہ صحابہ کی تکفیر باعث کفر ہے کیونکہ اس طرح دین کا سارا اعتبار ہی اٹھ جاتا ہے اور بہت ساری آیات و احادیث کی تکذیب ہوتی ہے جن میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے اللہ کی رضا کا اعلان ہے :
و ينبغي أن يُستَثنى من عدم تكفير أهل البدع : من يكفر جميع الصحابة لتكذيبه صريح الآيات القرآنية و الأحاديث النبوية الدالّة على تفضيلهم على البريّة و على أن الله قد رضي عنهم و رضوا عنه . ثم رأيت صاحب الشفا صرّح بذلك حيث قال :
و كذا وقع الإجماع على تكفير كلّ من دافَع نصّ الكتاب ، إلى أن قال : و كذلك يُقطَع بتكفير كلّ قائلٍ قال قولاً يتوصل إلى تضليل الأمة و تكفير جميع الصحابة؛ كقول الكُمَيليّة من الرافضة بتكفير جميع الأمة بعد النبي ﷺ ، إذ لم يُقدِّموا عليّاً، و كفّرت عليّاً إذ لم يتقدّم و أبطل حقه في التقديم . فهولاء قد كفروا من وجوه لأنهم أبطلوا الشريعة بأسرها ، إذ قد انقطع نقلها و نقل القرآن ، إذ ناقلوه كَفَرة على زعمهم الخ…
اس کے بعد وہ نتیجہ بیان کرتے ہیں کہ جن کتبِ فتاوی میں شیخین کی گستاخی پر تکفیر کی گئی ہے، وہ اصولی طور پر غلط پوزیشن ہے اور یہ ائمہ سے مروی بھی نہیں ہے بلکہ بعد کے لوگوں کا قول ہے جس کی اس قانونی بحث میں کوئی حیثیت نہیں ہے :
إذا علمت ذلك ، ظهر لك أن ما مرَّ عن "الخلاصة” من أن الرافضي إذا كان يسبّ الشيخين و يلعنهما ، فهو كافرٌ ؛ مخالفٌ لِما في كتب المذهب من المتون و الشروح الموضوعة لنقل ظاهر الرواية؛ و لِما قدّمنا عن "الاختيار” و "شرح العقائد” ؛ بل مخالف للإجماع على ما نقله ابن المنذر ، كما مرَّ في عبارة ” فتح القدير” ؛ و كذا ما قدّمناه في عبارة شيخ الإسلام ابن تيمية من قوله : "و قال ابن المنذر : لا أعلم أحداً يُوجِب قتل من سبّ من بعد النبي ﷺ .” و إذا كان هذا فيمن يظهر سبّ جميع السلف ، فكيف من يسبّ الشيخين فقط ؟ فعُلِم أن ذلك ليس قولاً لأحد من المجتهدين . و إنما هو قول لمن حدث بعدهم . و قد مرّ في عبارة "الفتح” أنه : لا عبرة بغير كلام الفقهاء المجتهدين .
علامہ شامی یہ پھر واضح کرتے ہیں کہ اگر ان عبارات سے مراد وہ صورت ہے جب گستاخی کرنے والا اس کو حلال قرار دے کر کرے، تو وہ الگ بات ہے اور اس پر تکفیر درست ہے کیونکہ جیسا کہ واضح کیا گیا، حرام کو حلال قرار دینا کفر ہے:
اللهم إلا أن يكون المراد بما في ” الخلاصة” أنه كافر إذا كان سَبُّه لهما لأجل الصحبة، أو كان مُستحلِاًّ لذلك بلا شبهة تأويلٍ ، أو كان من غُلاة الروافض ممّن يعتقد كفر جميع الصحابة ، أو ممن يعتقد التناسخ و ألوهية عليٍّ ، و نحو ذلك ؛ أو المراد أنه كافر ، أي اعتقد ما هو كفرٌ ، و إن لم نحكم بكفره ، احتياطاً ؛ أو هو مبنيّ على قول البعض بتكفير أهل البِدَع.
متاخرین کے ایک بے بنیاد فتوی پر تنقید
اس موڑ پر آکر علامہ شامی وہ عبارت پیش کرتے ہیں جس کو بہت سے متاخرین نے اپنی راے کی بنیاد بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ عبارت علامہ ابن نجیم نے کنز الدقائق کی شرح البحر الرائق میں مختصر القدوری کی مشہور شرح "الجوھرۃ” کی طرف منسوب کرکے نقل کی ہے:
من سبّ الشيخين أو طعن فيهما ، كفر؛ و يجب قتله ؛ ثم إن رُفِع وتاب و جَدّد الإسلام ؛ هل تُقبَل توبته أم لا ؟ قال الصدر الشهيد : لا تُقبَل توبته و إسلامه و نقتله . و به أخذ الفقيه أبوالليث السمرقندي و أبو نصر الدبوسي ؛ و هو المختار للفتوى .
علامہ شامی واضح کرتے ہیں کہ ایک تو یہ عبارت الجوھرۃ کے رائج نسخوں میں نہیں پائی جاتی اور خود علامہ ابن نجیم کے بھائی نے کنز ہی کی شرح ” النھر الفائق” میں اس کی تصریح کی ہے کہ الجوھرۃ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں ہے۔
قد ردَّ على صاحب "البحر” أخوه صاحبُ "النهر” بأنّ "هذا لا وجود له في "الجوهرة” ، و إنّما وُجِد في هامش بعض النُسَخ ، فأُلحِق بالأصل .”
مزید یہ کہ خود الجوھرۃ میں ایسی عبارات موجود ہیں جو صراحتاً اس عبارت کی نقیض ہیں۔
بل فيه ما يناقضه ، فإنه قال في الشهادات : و لا تُقبَل شهادة من يُظهِر سبّ السلف الصالحين لظهور فسقه ، و المراد بالسلف الصالحين الصحابة و التابعین . فقال : "لظهور فسقه” ، و لم يقل : لكُفرِه .
تیسرے یہ کہ اگر یہ عبارت الجوھرۃ کی ہو بھی ، تو جب ائمۂ مجتہدین کی تصریحات موجود ہیں ، تو ان کی موجودگی میں اس عبارت کی اور اس موقف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔انھوں نے یہ بھی بہت اہم نکتہ پیش کیا ہے کہ اس عبارت میں قرار دیا گیا ہے کہ اس شخص کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی ، حالانکہ حنفی مذہب کے ائمہ کی جانب سے تصریحات موجود ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی بھی توبہ مقبول ہے۔ اس موقع پر انھوں نے کیا ہی خوب بات کہی ہے کہ حضرات شیخین کا بہت ہی اعلی مقام ہے لیکن جس ہستی کی خدمت کی وجہ سے انھیں یہ مقام ملا ہے ، اس ہستی کا مقام یقیناً ان سے بہت ہی اونچا ہے۔ تو جب آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی توبہ قبول کی جاتی ہے تو شیخین کی شان میں گستاخی کرنے والے کی کیسے مسترد کی جاسکتی ہے؟
و حيث تحقّقتُ ما في الباب الأول ممّا عليه المعوّل ، وهو المنقول عن أبي حنيفة و أصحابه من أنّ توبة سابّ المصطفي ﷺ مقبولةٌ عاصمةٌ لدمه و ماله ؛ كما هو حكم عامّةُ أهل الردّة . علمتَ يقيناً أنّ ما نقل عن "الجوهرة” لا أصل له لأنّ مقام الشيخين ، و إن كان عالياً ، لكن مقام من تشرّفا بخدمته ﷺ أعلى .
کیا رافضی کے پاس بھی کوئی ایسی تاویل ہوسکتی ہے جو اسے تکفیر سے بچاسکے؟
اس مقام پر علامہ شامی نے وہ بات کہی ہے جو آج کے فرقہ وارانہ منافرت کی فضا میں بہت سے لوگوں کےلیے ناقابلِ قبول ہوگی۔ انھوں نے تصریح کی ہے کہ کئی صورتیں ایسی ہوسکتی ہیں جن میں رافضی کی جانب سے کی جانے والی گستاخی پر اس کی توبہ کی عدمِ قبولیت کی بات تو ایک طرف ، اس کی تکفیر بھی اس بنا پر نہیں کی جائے گی کہ اس کے پاس تاویل ہے!
على أنك قد علمت ممّا قررناه في هذا الباب إن السابّ إذا كان رافضياً اعتقد شبهة مسوغة في اعتقاده للسبّ ، لم يحكم بكفره ، فضلاً عن عدم قبول توبته ،
البتہ وہ یہ پھر واضح کرتے ہیں کہ گستاخیوں کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں تاویل بھی تکفیر سے نہیں بچاسکے گی، جیسا کہ پیچھے واضح کیا گیا ، اور اس کی مثالوں میں ایک دفعہ پھر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت سے انکار، یا ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اس فعل کی نسبت جس سے قرآن نے ان کی براءت کی ہے، کا ذکر کرتے ہیں۔ اس مقام پر وہ پھر واضح کرتے ہیں کہ یہاں تکفیر کا سبب دین کے قطعی حکم کا انکار ہے،نہ کہ گستاخی:
إلا إذا كان يعتقد ما يخالف دليلاً قطعيّاً ، كإنكار صحبة الصديق و قذف الصديقة و نحو ذلك ؛ فيُكَفّر بذلك ، لا بالسبّ؛ أو لم يكن معتقِداً شبهةً لكنه استحلّ السبّ ؛ فحينئذٍ يُكَفَّر لاستحلاله المُحرَّم قطعاً بلا شبهة. أما لو سبّ بدون ذلك كله ، لم يخرج عن الإسلام ، كما علمته ممّا نقلناه عن كتب المذهب متوناً و شروحاً و غيرها .
کیا گستاخی پر عدمِ تکفیر سے مراد یہ ہے کہ گستاخی پر سزا بھی نہیں دی جاسکتی؟
اگلا سوال علامہ شامی یہ اٹھاتے ہیں اور اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ عدمِ تکفیر سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ اس فعل کی کھلی چھٹی دی جائے۔ اس کے برعکس وہ تصریح کرتے ہیں کہ اس فعل پر حکومت کی جانب سے مناسب سزا دی جاسکتی ہے، جسے حنفی اصطلاح میں "سیاسہ” کہا جاتا ہے۔
نعم ، للإمام تأديبه و تعزيره بما يراه مناسباً في حقه .
وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ چونکہ سیاسہ کے اختیارات کے تحت جرم کی سنگین صورتوں میں سزاے موت بھی دی جاسکتی ہے ، اس لیے جن فقہاے کرام کی جانب سے گستاخِ صحابہ کےلیے سزاے موت کا ذکرملتا ہے، شاید ان کی مراد یہی ہو کہ ایسے شخص کو سیاستاً سزاے موت دی جائے، نہ کہ اس کے کفر کی وجہ سے بطور حد :
و لعلّ من قال إنه يُقتَل أراد به قتله سياسةً، لا كفراً .
واضح رہے کہ سیاسہ کے تحت سزاے موت صرف جرم کی آخری صورت میں دی جاتی ہے، نہ کہ ہر صورت میں۔
آخری بات: محفوظ راستہ یہ ہے کہ تکفیر نہ کی جائے!
اس بحث کی آخری بات علامہ شامی یہ کرتے ہیں کہ شیخین یا دیگر صحابہ کی شان میں گستاخی پر تکفیر کا موقف انتہائی کمزور ہے اور اس میں حد درجہ احتیاط لازم ہے؛ نیز متاخرین کی کتبِ فتاوی کی بنیاد پر کسی کی تکفیر نہ کی جائے ؛ صرف انھی صورتوں میں تکفیر کی جاسکتی ہے جس میں تاویل کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہ ہو:
و الحاصل : أن الحكم بالكفر على سابّ الشيخين أو غيرهما من الصحابة مطلقاً قولٌ ضعيفٌ، لا ينبغي الإفتاء به و لا التعويل عليه ، لِما علمته من النقول المعتبرة . فإن الكفر أمر عظيم لم يتجاسر أحد من الأئمة على الحكم به ، إلا بالأدلة الواضحة العارية عن الشبهة ، كما علمته ممّا قرّرناه . على أنك قد علمت ممّا ذكرناه في الباب الأول أنه "لا يُفتی بكفر مسلمٍ ما أمكن كلامه على محملٍ حسن ٍ ، أو كان في كفره اختلاف ، و لو رواية ضعيفة .” و علمت أيضاً قول صاحب "البحر” : "و لقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشيئ منها ، أي من ألفاظ التكفير المذكورة في كتب الفتاوى .” و منها هذه المسئلة المذكورة في "الخلاصة” ، فإن غالب هذه مخالِفة لِما اشتُهِر عن الأئمة من عدم تكفير أهل القبلة ، إلا ما كان الكفر فيه ظاهراً ، كقذف عائشة و نحوه .
اسی بات پر میں بھی اس بحث کا خاتمہ کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ درست باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا کرے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔ آمین!