ان دنوں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات میں کسی حد تک بدمزگی رونما ہونے کی اطلاعات ہیں ۔ جس پر پاکستانی قوم حسب معمول تقسیم ہے۔بعض ذرائع اسے لابیوں کی رسہ کشی قراردے رہے ہیں حقیقت کیا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب ،ایران اورپاکستان کے ماضی میں اچھے تعلقات رہے ہیں ۔ پاکستان اورسعودی عرب کے برادرانہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے ۔
1932 میں شاہ عبدالعزیز نے جدید سعودی عرب کے قیام کااعلان کیا تب پاکستان معرض وجود میں نہیں آیا تھا ۔ مگر 1947 میں قیام پاکستان کااعلان ہوتے ہی سعودی عرب نے دنیا کی اس پہلی اسلامی مملکت کو تسلیم کرکے اس کی ہرقسم کی مدد کی یقین دہانی کی ۔
پاکستان کے جغرافی وقوع اور عالم اسلام میں اہمیت کے باعث پاکستان ہمسایہ ملک ایران اورعالم اسلام کے اہم ملک سعودی عرب دونوں کے لئے یکساں اہم واقع ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ 1968 میں دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والی کشیدگی سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
پاکستان میں موجود سعودی عرب اورایرانی لابیز ہمیشہ سے پاکستان کے مذکورہ دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والے مدوجزرمیں دلچسپی لیتے ہیں اوراس میں اپنا حصہ ڈالنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر سفارتی تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کے ایران یا سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کسی ایک ملک کے خلاف نہیں ۔
قیام پاکستان سے اب تک 6 سعودی بادشاہ 14 دورے کرچکے ہیں ۔ 1954 میں جدید سعودی عرب کے دوسرے بادشاہ کنگ سعود نے اس وقت پاکستان کا دورہ کیا تھا جب شاہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان اچھے تعلقات تھے ۔ دورہ پاکستان کے ایک سال بعد 1955 میں سعودی بادشاہ کنگ سعودی ایران کے سرکاری دورے پر گئے۔ یہ وہ موقع تھا جب ایران کو خلیجی خطے میں بالخصوص بحرین میں برطانوی پالیسیوں پرتشویش تھی ۔ جس کے لئے ایران نے سعودی عرب کی مدد لی اورتہران کے دورے کے دوران دونوں بادشاہوں کے درمیان اس موضوع پر بات چیت ہوئی ۔
1960 میں ایران نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو سعودی عرب ناراض ہوگیا دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سردمہری پیدا ہوگئی لیکن 1962 میں یمن میں زیدی سلطنت کے خلاف مصرکے جمال عبدالناصر کی فوجی مداخلت کے وقت ایران نے کھل کر سعودی عرب کاساتھ دیا ۔
شاہ ایران نے اس موقع پر ایک انٹرویو میں بتایا کہ مصرکی یمن میں فوجی کارروائی کا اصلی ہدف سعودی عرب ہے تاکہ مصر خلیجی تیل کے ذخائر پر قابض ہوسکے ۔
1964 میں تخت نشین ہونے کے بعد 1965 میں شاہ فیصل نے ایران کا تفصیلی دورہ کیا ۔
1967 میں ایک بار پھر شاہ فیصل نے ایران کا دورہ کرلیا بلکہ عراق اورکویت کے ساتھ ایران کے سرحدی تنازع حل کرنے میں سعودی عرب نے ثالثی کی بھی پیشکش کی۔
1968 میں ایرانی بادشاہ نے سعودی دورے کا اعلان کیا تاہم بحرین اورکویت سے متعلق سعودی عرب کی ایک قرارداد پر احتجاج کرتے ہوئے شاہ ایران نے اپنا دورہ منسوخ کردیا ۔ یوں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے ۔ جو 1971 میں بحرین کوخلیج میں ضم کرکے خودمختار ریاست کے ریفرنڈم کی سعودی حمایت پر مزید کشیدہ ہوتے چلے گئے ۔ اوربالآخر 1979 میں معاملہ سیاسی اورسفارتی کے بجائے فرقہ واریت کے دلدل میں پھنس گیا ۔
دوسری جانب ایران اورسعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بحال رہے ۔ شاہ سعود کے بعد شاہ فیصل نے تین جبکہ شاہ خالد نے پاکستان کے دو دورے کئے۔
1980 میں ولی عہد کی حیثیت سے شاہ فہد نے صدرضیا الحق کے عہد میں پاکستان کا دورہ کیا ۔
شاہ عبداللہ نے زمانہ ولی عہدی سے بادشاہ بننے تک پاکستان کے پانچ دورے کئے ۔ان کا آخری دورہ پاکستان 2006 میں پرویز مشرف کے دورمیں ہوا ۔ جسے غیر معمولی پروٹوکول دیا گیا تھا ۔ موجودہ بادشاہ شاہ سلمان نے 1998 میں ریاض کے گورنرکی حیثیت سے جبکہ 2014 میں ولی عہد کی حیثیت سے پاکستان کا دورہ کیا ۔
حالیہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تین مرتبہ پاکستان کے دورے پرآئے ہیں ۔
امریکن اسٹڈیز سینٹر پیو کے مطابق 95 فیصد پاکستانی سعودی عرب سے محبت کرتے ہیں ۔پاکستان کا سعودی عرب کے غیرعرب دوست ممالک میں پہلا نمبر ہے ۔
دی اکانومسٹ میگزین کے رائٹر اورجنوبی ایشیا کے امور کے ماہر شاشانک جوشی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے سیکورٹی اور دفاعی اداروں کو یقین ہے کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو کسی بھی غیرملکی حملے کے وقت سعودی عرب کو سب زیادہ افرادی مدد فراہم کرسکتا ہے ۔دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضروریات کا احساس اوراندازہ ہے ۔ تاہم پاکستان خارجہ تعلقات میں آزادانہ فیصلوں کا قائل ہے جس میں ترکی اورایران کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہیں اورماہرین کے مطابق یہی وہ نقطہ ہے جس سے انتہائی مہارت کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر حکومت نے خارجہ سطح پر احتیاط سے کام نہ لیا تو یہ بیلنس متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہونا کوئی بعید نہیں تاہم خیر اس بیلنس کو باقی رکھنے میں ہے ۔