حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب نے اپنی گفتگو میں شیعہ اور سنی کو بھائی قرار دیتے ہوئے شیعہ کی عمومی تکفیر کی نفی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی نیا موقف نہیں ہے اور اھل سنت کے ہاں تکفیر شیعہ کے بارے میں جو اختلافی آراء پائی جاتی ہیں ان کا اظہار ہی مفتی صاحب کی گفتگو سے ہوا ہے۔ہمیں مفتی صاحب کی رائے سے سردست کچھ لینا دینا نہیں۔ ہم البتہ ان کے اس بیان کی ٹائمنگ کے بارے میں نہ صرف حیران ہیں بلکہ یہ بات ہمارے لیے پریشانی کا بھی باعث ہے۔
یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ پاکستان میں اس وقت رافضی لابی کس طرح اپنی جڑیں سیاسی سطح پر مضبوط کر چکی ہے۔ حکومتی ایوانوں میں رافضی لابی کی پذیرائی کی غیر معمولی کہانیاں چہار سو بکھری ہوئی ہیں۔ بریلوی مکتب فکر کے ڈاکٹر آصف اشرف جلالی کے ایک غیر محتاط بیان سے جو طوفان اٹھا تھا اس سے رافضیوں نے اپنے مقاصد سمیٹے اور اس کی آڑ میں جو ہفوات بکی گئیں اس کے ثبوت سوشل میڈیا پر جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ محض الفاظ کے چناو میں غیر محتاط ہونے کے جرم میں آصف اشرف جلالی کو رافضی اور نیم رافضی لابی کے پریشر میں آکر پابند سلاسل کردیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ڈاکٹر جلالی کے موقف کی وضاحت و دفاع میں سرگرم قاری زوار بہادر صاحب کے بھی رواں ہفتے کے دوران محرم شروع ہوتے ہی گرفتار کرنے کی خبر ہے۔ قاری زوار بہادر صاحب ایک دیرینہ سیاسی و مذہبی کارکن رہے ہیں۔ مولانا شاہ احمد نورانی رحمہ اللہ کے قابل اعتماد ساتھیوں میں شامل تھے۔ اعتدال اور توازن پر مبنی گفتگو فرماتے ہیں۔ مگر شیعہ و رافضی لابی کی اشتعال انگیزی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنے رائے کی مخالفین کی آواز کو دبانے کے لئے پوری طرح سرگرم ہیں۔
اس سارے معاملے میں بدقسمتی سے رافضی لابی کو بریلوی مکتب فکر کے اندر ہی سے ایسے حمایتی مل گئے ہیں، جن پر بالواسطہ و بلاواسطہ کئی سالوں سے ایرانی فنڈنگ کا ہن برستا رہا ہے۔ مشہد، کربلا اور نجف کی زیارتوں کی آڑ میں ایران نے پاکستان کے بریلوی حلقے میں گہری نقب لگا رکھی ہے جس کے منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ جو قاری زوار بہادر کی طرح ایرانی لابی کا ہمنوا نہیں اس کی زبان بندی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ابھی یہ قضیہ چل ہی رہا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا جس کے ذریعے احترام اھل بیت و اصحاب رسول علیہ السلام کی بات کی گئی۔ اس بل کے مندرجات سے اختلاف ہونا ایک بات ہے مگر بل کی مخالفت کی آڑ میں پاکستان کی شیعہ قیادت نے جس جارحانہ انداز میں اھل سنت کے مسلمات کا انکار کیا اور ان سے بغاوت کو اپنے ایمان کی اساس قرار دیا اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ سنی اکثریت کے حامل اس ملک میں میڈیا پر رافضی دندناتے ہوئے اھل سنت کو چیلنج کرتے رہے اور انتہائی قابل اعتراض گفتگو کرتے رہے مگر بدقسمتی سے کوئی نیشنل ایکشن پلان حرکت میں نہیں آیا۔ اس مذموم حرکت سے پیغام پاکستان پر بھی زد نہیں پڑی۔ رافضیوں کی دھمکیوں اور گمراہ کن بیانات کی مذمت میں اتحاد امت کے داعی حضرات کا ایک بھی بیان سامنے نہیں آیا۔
اس تناظر میں مفتی اعظم کے بیان سے جو تکلیف اہل سنت کو ہوئی ہے، اسے سمجھنا قطعی طور پر مشکل نہیں ہے۔ حضرت مفتی صاحب رافضیوں کی طرف سے چند ماہ کے دوران کی جانے والی ساری شرانگیزیوں کے بارے میں یا تو خاموش رہے یا پھر محض عمومی انداز میں بات کرتے رہے۔ صراحت سے شیعہ لابی کو مخاطب کر کے یہ کہنے کی زحمت مفتی اعظم پاکستان کو نہیں ہوسکی کہ خاموش ہو جاؤ اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم و ازواج مطہرات کے بارے میں اپنے گندے نظریات کو خود تک محدود رکھو۔ جب پورے پاکستان میں یہ آگ لگانے کی کوشش کی جا رہی تھی، اس وقت حضرت سمیت تمام اتحاد امت کے داعی حضرات اور واعظین منظر نامے سے غائب تھے۔ ابھی اہل سنت کے جذبہ ایمانی پر کاری وار کر کے لگائے گئے زخم ہرے ہی ہیں کہ مفتی محمد رفیع عثمانی نے رافضی لابی کی خوشنودی و دلجوئی کے لیے نیا بیان داغ دیا ہے۔
حضور والا! ہم کافر کافر کے نعروں کے قائل نہیں اور تکفیر کے عمومی ایجنڈے کی ہمیشہ سے نفی کرتے رہے ہیں۔ مگر اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ عقیدہ اھل سنت کے مسلمات بشمول خلفائے ثلاثہ اور ازواج مطہرات کے بارے میں اگر ایک فریق اپنے غلاظت بھرے عقیدے کا پرچار کرے تو ہم مداہنت کا شکار ہو کر بھائی چارے کا راگ الاپنا شروع کردیں۔ ہماری دانست میں مفتی صاحب کے بیان کے بعد جو حضرات فقہی آراء اور عبارتوں سے مفتی صاحب کے موقف کے صائب ہونے کا جواز تلاش کر رہے ہیں وہ سادہ لوحی کا شکار ہیں۔ جو کچھ گذشتہ چند ماہ سے رافضی لابی متحرک ہو کر پاکستان میں کر رہی ہے یہ ایک سیاسی اور پالیسی سطح کا معاملہ ہے۔ اسے محض مذہبی بحثوں کی پیکجنگ میں ملفوف کر کے سامنے لایا جا رہا ہے۔ یہ دراصل حکومت میں شامل رافضی لابی کی قوت اور کنٹرول کے اظہار کے بہانے ہیں۔ اس لابی کے سرپرستوں بشمول زلفی بخاری، علی زیدی، شیریں مزاری وغیرہ کی طرف سے ذاکروں کی گستاخ زبانوں سے یہ پیغام نشر کیا جاتا ہے کہ دیکھو ہم کون ہیں اور کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ اس پیغام کو تجاہل عارفانہ سے نظرانداز کر کے تکفیر شیعہ کی علمی بحثوں کو نکال کر ان میں گم ہوجانا اھل سنت کی قیادت کی سنگین خطا ہوگی۔
مذکورہ بالا تحریر ادارہ افکار پاک کا پالیسی بیان ہے۔موجودہ حالات میں اس عنوان پر ہونے والی مباحث اور مختلف واقعات پر ادارتی رائے کا اظہار کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ اہل قلم اس پر غیر جانبدار رہتے ہوئے مذکورہ بحث پر خامہ فرسائی کرنا چاہیں تو ادارہ افکار پاک انہیں خوش آمدید کہے گا۔