جیل میں قید آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرینٹ کو سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان کرائسٹ چرچ ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا۔ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں اور اس نے جیل کے مخصوص بھورے رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔ توقع ہے کہ عدالت چار روز تک چلنے والی کارروائی کے دوران مذکورہ حملے میں بچ جانے والے 66 متاثرین کے بیانات درج کرے گی۔
سفید فام نسلی برتری کے پیروکار آسٹریلوی شہری ٹرینیٹ کو 51 افراد کے قتل، 40 افراد کے اقدام قتل اور دہشت گردی کے ایک واقعہ کا قصوروار پایا گیا تھا۔
وکلاء کا خیال ہے کہ ٹرینیٹ نیوزی لینڈ کی تاریخ میں غالباً ایسا پہلا شخص ہوگا جسے پیرول کے بغیرعمر قید کی سزا سنائی جائے گی۔
چار روز تک چلنے والی اس عدالتی کارروائی کے دوران ہائی کورٹ کے جج کیمرون مینڈر زندہ بچ جانے والے 66 متاثرین سے ان کے بیانات سنیں گے۔ فیصلہ سنائے جانے سے قبل عدالت 30 سالہ ٹیرینٹ کا موقف بھی سنے گی۔
عدالتی کارروائی کی براہ راست نشر کرنے پر میڈیا پر پابندی لگادی گئی ہے تاکہ ٹیرینٹ سماعت کے دوران سفید فام نسلی برتری والے اپنے نظریات کی تشہیر نہ کرسکے اور اسے کسی طرح کی پبلسٹی نا ملنے پائے۔
صحافیوں کے لیے ہدایات بھی جاری کردی گئی ہیں کہ وہ کن باتوں کی رپورٹنگ کرسکتے ہیں اور ان ہدایات کی کسی بھی طرح کی خلاف ورز ی کو توہین عدالت کے مترادف سمجھا جائے گا۔
جج کیمرون مینڈر کا کہنا تھا”عدالت کی اپنی ذمہ داریاں ہیں، بالخصوص انسداد دہشت گردی قانون کے پس منظر میں اس امرکو یقینی بنانے کی اس کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ عدالت کو ایک پلیٹ فارم کے طورپر استعمال نہ کیا جاسکے… اور مزید نقصان پہنچانے کے آلہ کار کے طور پر اس کے استعمال کو روکا جاسکے۔”
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈ ا آرڈین نے کہا کہ یہ ہفتہ بہت سے لوگوں کے لیے کافی مشکل ہوگا۔ ”میں نہیں سمجھتی کہ میرے پاس ایسا کہنے کے لیے کچھ ہے جس سے اس مدت کے دوران پریشانیوں کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔”
پیر کی صبح سے ہی عدالت کے باہربڑی تعداد میں پولیس تعینات کردی گئی ہے۔ عدالت کے عملے کو بھی سخت تلاشی کے بعد ہی عدالت میں جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔ میڈیا کو مخصوص سیکورٹی پوائنٹس پر روک دیا گیا ہے۔ دماغی صحت کے ماہرین کو بھی تیار رکھا گیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق عدالت کی عمارت کی چھت پر اسنائپرزبھی تعینات کیے گئے ہیں۔
نیوزی لینڈ میں متنوع مسلم کمیونٹی کی مدد کے لیے عدالتی کارروائی کا آٹھ زبانوں میں ترجمہ کیا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ 15 مارچ 2019 کو کرائسٹ چرچ میں نماز جمعہ کے دوران ٹیرینٹ نے نمازیوں پر اندھادھند فائرنگ کردی تھی۔ اس نے خونریزی کے اس واقعے کو فیس بک پر لائیو نشر بھی کیا تھا۔ اس حملے کے فوراً بعد ٹرینٹ نے اپنا ایک مینی فیسٹو بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا تھا۔ حملے کے 36 منٹ بعد اسے حراست میں لے لیا گیا تھا۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں پاکستان، ترکی، سعودی عرب، انڈونیشیا اور ملائشیا کے شہریوں کے علاوہ مقامی نو مسلم شہری بھی شامل تھے۔ اس حملے کی ساری دنیا میں شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔ عالمی لیڈروں نے اس حملے کو ہولناک اور سفاکانہ قرار دیا تھا، جبکہ جسینڈا آرڈین نے ان حملوں کو اپنے ملک کی ‘تاریخ کے سیاہ ترین دن‘ سے تعبیر کیا تھا۔