اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے کچھ عرصہ قبل آپس میں باقاعدہ تعلقات کے قیام کا جو تاریخی معاہدہ کیا، اس کے بعد اس یہودی ریاست کو اس کے سب سے بڑے حریف ملک ایران کی دہلیز تک اقتصادی رسائی حاصل ہو جائے گی۔
یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے دیگر خلیجی عرب ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کے قیام کا رستہ بھی کھول سکتا ہے مگر یہ امکان بہت کم ہے کہ اسرائیل کو حاصل ہونے والی معاشی رسائی سے ایران اور امارات کے باہمی اقتصادی رابطے متاثر ہوں گے۔
اس بارے میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے دبئی سے اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ ایران اور اسرائیل اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں، لیکن امارات کے ساتھ معاہدہ طے پا جانے کے بعد اسرائیلی ادارے متحدہ عرب امارات میں مقیم ایرانی کاروباری شخصیات کے ساتھ براہ راست رابطے میں آ سکتے ہیں۔ ماہرین کے بقول اہم بات یہ ہے کہ ایسے آئندہ تعلقات اگر صرف معاشی نوعیت کے ہوں تو بھی ان کا سیاسی فائدہ بھی ضرور ہو گا۔
‘بس کچھ وقت لگے گا‘
خارجہ تعلقات کی یورپی کونسل کے ایک ریسرچ فیلو سنزیا بیانکو کہتی ہیں کہ متحدہ عرب امارات میں ایرانی اور اسرائیلی کاروباری شخصیات بالآخر ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں میں آ جائیں گی، لیکن ‘اس میں بس کچھ وقت لگے گا‘۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ یہ آئندہ اقتصادی تعلقات سیاسی طور پر فائدہ مند کس طرح ہو سکتے ہیں، سنزیا بیانکو کہتی ہیں، ”یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ بیرون ملک، خاص کر متحدہ عرب امارات میں مقیم وہ ایرانی باشندے، جن کے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ آج بھی قریبی رابطے ہیں، ایسے ایرانی شہری ہیں جنہیں ماضی میں یا تو ان کے وطن سے نکال دیا گیا تھا یا جو خود ہی ملک چھوڑ گئے تھے۔‘‘
سنزیا بیانکو کہتی ہیں کہ متحدہ عرب امارات، خاص کر دبئی میں مقیم ایرانی باشندے زیادہ تر ایسی بہت امید پسند کاروباری شخصیات ہیں، جو کسی قسم کی سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہتیں۔ ان ایرانی کاروباری حلقوں کے لیے امارات کا اسرائیل کے ساتھ تاریخی معاہدہ کوئی چیلنج نہیں بلکہ اپنے اندر کئی نئے امکانات لیے ہوئے ہے۔
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عملفلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
معاہدے کے علاقائی سیاسی اثرات
یو اے ای خلیج کے خطے کا وہ پہلا ملک بن چکا ہے، جس نے اسرائیل کے ساتھ روابط کے قیام کا فیصلہ کیا، لیکن ایک ایسے ماحول میں جس میں ایران اور علاقے کی دیگر ریاستوں کے مابین کشیدگی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ کئی خلیجی ریاستیں ایران پر یہ الزام بھی لگاتی ہیں کہ وہ علاقے میں عدم استحکام کو ہوا دے رہا ہے۔
امارات کی سیاسی قیادت تہران پر یہ الزام بھی لگاتی ہے کہ ایران نے 1971ء میں خلیج میں واقع تین ایسے جزائر پر زبردستی قبضہ کر لیا تھا، جو متحدہ عرب امارات کی ملکیت تھے۔
یو اے ای سعودی عرب کا ایک بڑا اتحادی ملک ہے۔ اسی لیے ابوظہبی حکومت نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات 2016ء میں اس وقت محدود کر دیے تھے، جب ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ ایران کو تو اپنے خلاف سخت امریکی اقتصادی پابندیوں کا سامنا بھی ہے۔
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیںایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
ایرانی تنبیہ اور اماراتی ردعمل
متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ معمول کے سفارتی اور کاروباری تعلقات کے قیام کا یہ نتیجہ تو بہرحال نکلے گا کہ اس کے خطے کی سیاست اور معیشت ہر بھی براہ راست یا بالواسطہ اثرات مرتب ہوں گے۔
جب امریکی صدر ٹرمپ نے اچانک اسرائیلی اماراتی معاہدے کا اعلان کیا تھا، تو اس کے صرف دو روز بعد ہی ایرانی صدر حسن روحانی نے متحدہ عرب امارات کی قیادت کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ”خطے میں اسرائیل کے لیے راستہ کھولنے سے باز رہے۔‘‘
اس کے جواب میں اماراتی حکومت نے اپنے ملک میں ایرانی سفیر کو طلب کر کے باقاعدہ احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران ‘دھمکیاں دینا‘ بند کرے۔ پھر اس کے اگلے ہی دن اماراتی رہنماؤں نے زور دے کر یہ بھی کہہ دیا تھا کہ یہ ”اماراتی اسرائیلی معاہدہ ایران کے خلاف نہیں کیا گیا۔‘‘
فاصلہ صرف چوالیس میل
ایران اور خلیجی ریاستوں کے مابین کشیدگی سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ امارات کے ریاستی علاقے اور ایرانی ساحلوں کے درمیان صرف آبنائے ہرمز ہے، اور یہ فاصلہ محض 44 ملین یا 70 کلومیٹر بنتا ہے۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟آج کا ’جبل زیتون‘’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہی تنگ سمندری راستہ تیل اور گیس سے مالا مال عرب ممالک اور ان کی ایشیا، یورپ اور شمالی امریکا سمیت دنیا بھر کی منڈیوں تک رسائی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس لیے کہ سمندری راستے سے دنیا میں تیل کی جتنی بھی سالانہ تجارت ہوتی ہے، اس تیل کا 35 فیصد حصہ آبنائے ہرمز سے ہو کر گزرتا ہے۔
امارات میں آٹھ ہزار ایرانی کمپنیاں
متحدہ عرب امارات کے لیے ایران کے ساتھ دوطرفہ تجارت بھی ناگزیر ہے۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حجم گزشتہ برس 8.3 بلین ڈالر رہا تھا۔ ایران بھی امریکی پابندیوں کی وجہ سے یو اے اے کو اپنے ایک اہم ہمسائے اور تجارتی ساتھی کے طور پر کھونا نہیں چاہتا۔
مگر دوسری طرف یو اے ای میں ایرانی کمپنیوں کی تعداد آٹھ ہزار سے زائد ہے اور تقریباﹰ چھ ہزار ایرانی تاجر ایسے بھی ہیں، جو اس وفاقی عرب ریاست کے مختلف حصوں میں کاروبا رکرتے ہیں۔ ایسے میں بہت زیادہ امکان یہی ہے کہ متحدہ عرب امارات میں اسرائیلی کاروباری شخصیات اور سرمایہ کاری کی جو لہر عنقریب متوقع ہے، اس کا سامنا وہاں ایرانی کاروباری اداروں اور شخصیات کو بھی ہو گا۔