رواں سال مارچ میں سعودی عرب اور روس میں تیل کی قیمت پر تنازع ہوا۔ سعودی عرب چاہتا تھا کہ روس تیل کی پیداوار میں کمی کرے تاکہ تیل کی گرتی قیمتوں کو سنبھالا جا سکے لیکن روس پیداوار کم کرنے پر راضی نہیں تھا۔
روس کے اس رویے سے تنگ آ کر سعودی عرب نے بھی تیل کی قیمتوں میں کمی کر کے پیداوار بڑھانے اور فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سعودی عرب نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا جب کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے دنیا کے تمام کاروبار تعطل کا شکار تھے۔
دونوں ممالک قیمتوں میں کمی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہے تھے اور روسی سرکاری ٹیلی ویژن سعودی عرب پر اپنی کرنسی روبل میں کمی کا الزام لگا رہا تھا۔
دوسری جانب سعودی عرب نے بھی پلٹ کر وار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یکم اپریل کو سعودی عرب کی قومی تیل کمپنی آرامکو نے کہا کہ وہ روزانہ ایک کروڑ 30 لاکھ بیرل تیل تیار کرے گی۔
یہ روس کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے 26 فیصد زیادہ پیداوار تھی۔ سعودی عرب کا خیال تھا کہ وہ روس کے ساتھ قیمتوں کی جنگ میں خود کو بادشاہ ثابت کرے گا۔
لیکن اس سے قبل نظر گذشتہ تین سالوں میں تیل کی دنیا میں ان دو اہم تبدیلیوں پر جن کا اثر بہت وسیع رہا۔
پہلا یہ کہ امریکہ میں تیل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ اس پیداوار میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ امریکہ ایک بڑے تیل درآمد کرنے والے ملک سے تیل برآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
دوسرا تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے روس اور سعودی عرب کے درمیان تعاون ضروری ہے۔
امریکہ، روس اور سعودی عرب دنیا میں تیل پیدا کرنے والے تین بڑے ممالک ہیں۔ امریکہ پہلے نمبر پر ہے اور روس اور سعودی کے مابین مقابلہ جاری ہے اور دونوں ممالک کے مابین حالیہ دنوں میں تعاون بری طرح متاثر ہوا ہے۔
پٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم یعنی اوپیک پر سعودی عرب کا سب سے زیادہ غلبہ رہا ہے۔ کووڈ 19 کی وجہ سے تیل کی طلب میں شدید کمی کے باعث مارچ میں، سعودی عرب نے اوپیک کے ذریعے تیل کی پیداوار میں کمی کی تجویز پیش کی تھی۔
روس اوپیک کا رکن نہیں ہے اور اس نے سعودی تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تیل کی قیمتوں کو لے کر مقابلہ نظر آیا۔
وبا کی وجہ سے تیل کی طلب میں شدید کمی
امریکی شیل آئل سعودی عرب اور روس دونوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اگرچہ شیل آئل کی تیاری مہنگی ہے لیکن شیل آئل کی وجہ سے ہی امریکہ دنیا کے سب سے بڑے تیل درآمد کرنے والے ملک سے سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک بن گیا۔
شیل آئل اور گیس کی مہنگی پیداوار کی وجہ سے روس کا خیال ہے کہ کوئی بھی اس کی منڈی کو چیلنج نہیں کر سکتا ہے۔ روایتی خام تیل (جو روس اور سعودی عرب میں ہے) کے مقابلے میں شیل آئل چٹانوں کی تہوں سے نکالا جاتا ہے۔
روایتی خام تیل چھ ہزار فٹ کی گہرائی سے نکالا جاتا ہے جبکہ شیل آئل کی پیداوار پیچیدہ ہے۔ سنہ 2018 میں امریکہ، سعودی عرب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔ امریکہ کے اس عروج نے سعودی اور روس کی تیل کی منڈی کو بھی متاثر کیا۔
جب کووڈ 19 کی وبا آئی تو تیل کی طلب میں زبردست کمی واقع ہوئی۔ اس کمی کے پیش نظر سعودی عرب اور روس کو اوپیک اور اوپیک پلس میں تیل کی پیداوار میں سخت کمی پر اتفاق کرنا پڑا۔ امریکہ کو بھی اپنی پیداوار میں روزانہ 20 لاکھ بیرل کم کرنا پڑے۔
تاہم امریکہ اور روس کے تیل کی پیداوار یا برآمد کم ہے اس لیے انھیں اتنا فرق نہیں پڑتا جتنا سعودی عرب کو پڑتا ہے۔ سعودی عرب کی معیشت کا دارومدار تیل پر ہے اور جیسے ہی تیل کی منڈی متاثر ہوتی ہے اس کی بادشاہت متزلزل ہو جاتی ہے اور مستقبل کے بارے میں خدشات جنم لینے لگتے ہیں۔
سعودی عرب کو امریکہ کے بعد روس کی جانب سے چیلنجز کا سامنا
سعودی عرب کے تیل کی پیداوار اور برآمدات کو امریکہ کے ساتھ ساتھ روس کی طرف سے بھی سخت چیلنج درپیش ہے۔ پہلے امریکہ نے تیل کی پیداوار کے معاملے میں سعودی کو دوسرے نمبر پر دھکیل دیا اور اب روس سعودی کو تیسرے نمبر پر لے گیا ہے۔
جوائنٹ آرگنائزیشن ڈیٹا انیشیٹو (جے او ڈی آئی) کے مطابق روس نے جون کے مہینے میں تیل کی پیداوار کے معاملے میں سعودی عرب کو تیسرے نمبر پر پہنچا دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی روس، امریکہ کے بعد تیل کی پیداوار کے معاملے میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ جے او ڈی آئی مطابق جون کے مہینے میں روس کے تیل کی پیداوار روزانہ لگ بھگ 87 لاکھ بیرل تھی جبکہ سعودی عرب کی پیداوار صرف 7.5 ملین بیرل تھی۔
جون میں امریکہ تیل کی پیداوار کے حوالے سے سرفہرست رہا۔ جے او ڈی آئی کے مطابق جون میں امریکہ میں تیل کی یومیہ پیداوار ایک کروڑ 80 لاکھ بیرل تھی۔ اسی دوران سعودی عرب کے تیل کی برآمدات بھی مسلسل کم ہورہی ہے۔
سعودی تیل کی برآمدات جون میں یومیہ 50 لاکھ بیرل سے بھی نیچے آ گئی ہے۔ جے او ڈی آئی کے مطابق مئی کے مقابلے میں جون میں اس کی تیل کی برآمدات میں 17 اعشاریہ فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
جون میں سعودی عرب کے تیل کی یومیہ برآمدات 49 لاکھ بیرل سے زیادہ رہی۔ سعودی تیل کی پیداوار مئی میں روزانہ 60 لاکھ بیرل اور اپریل میں ایک کروڑ بیرل تھی۔
اب سعودی عرب کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ وہ تیل سے اپنی معیشت کا انحصار کیسے کم کرے۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی خواہش ہے کہ وہ سعودی عرب کی معیشت کو تیل کی کمائی کے بغیر کھڑا کریں لیکن ابھی ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
رائس یونیورسٹی بیکر انسٹی ٹیوٹ میں توانائی کے امور کے ماہر جم کراین نے گذشتہ سال خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا تھا کہ ’سعودی عرب تیل کا عادی ہے اور اس کی عادت اب بھی کمزور نہیں ہوئی ہے۔ سعودی عرب کی معیشت تیل پر ہی منحصر ہے۔ جی ڈی پی تیل کے کاروبار پر مبنی ہے۔‘
عرب رہنما جانتے ہیں کہ تیل کی قیمتیں ہمیشہ ایسی نہیں رہیں گی۔ اسی کے پیش نظر چار سال قبل سعودی عرب کے ولی عہد نے ’وژن 2030‘ متعارف کرایا تھا۔
اس وژن کا مقصد تیل پر سعودی معیشت کے انحصار کو کم کرنا تھا۔ سعودی عرب کے باقی پڑوسی ممالک بھی جانتے ہیں کہ تیل پر انحصار کرنا کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے تیل کی آمدنی میں بھی مسلسل کمی آرہی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق سنہ 2012 میں ان علاقوں میں تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی ایک کھرب ڈالر تھی جو 2019 میں کم ہو کر 575 بلین ڈالر رہ گئی۔
رواں سال عرب ممالک کو تیل کی فروخت سے 300 ارب ڈالر حاصل ہوئے لیکن اس رقم سے ان کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوں سکیں گے۔ مارچ کے بعد سے ہی وہ پیداوار میں کمی کر رہے ہیں، ٹیکس میں اضافہ کر رہے ہیں اور قرضے لے رہے ہیں۔
دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے امور کے پروفیسر اے کے پاشا کا کہنا ہے کہ سعودی کا مستقبل زیادہ روشن نظر نہیں آتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں متبادل توانائی کی بات ہو رہی ہے اور اس کا دائرہ بھی وسیع ہو رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں تیل پر منحصر معیشتوں کا بحران بڑھتا جارہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے ان معیشتوں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر دیا ہے۔
کس کے پاس کتنا تیل ہے؟
سنہ 2016 میں رستاد انرجی کی ایک رپورٹ سامنے آئی تھی جس کے مطابق امریکہ کے پاس 264 بلین بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں۔
اس میں تیل کے موجودہ ذخائر، نئے منصوبے، حال ہی میں دریافت ہونے والے تیل کے ذخائر اور تیل کے وہ کنویں بھی شامل ہیں جن کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کے پاس روس اور سعودی عرب سے زیادہ تیل کے ذخائر ہیں۔
رستاد انرجی کے اندازوں کے مطابق روس میں 256 ارب بیرل تیل موجود ہے جبکہ سعودی عرب میں 212 ارب بیرل، کینیڈا میں 167 ارب بیرل، ایران میں 143 ارب بیرل اور برازیل میں 120 ارب بیرل تیل کے ذخائر ہیں۔
اس مضمون کے لکھاری رجنیش کمار ہیں جو بی بی سی ہندی سروس کے لیے لکھتے ہیں۔ یہ مضمون بی بی سی اردو سروس پر 23 اگست کو شائع ہوا