عظیم تہذیبوں کو کوئی ختم نہیں کرتا بلکہ یہ اپنے ہاتھوں خود اپنا خاتمہ کرتی ہیں۔ مشہور تاریخ دان ٹوئن بی نے 12 جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب مطالعۂ تاریخ میں یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔
ٹوئن بی کا تجزیہ بڑی حد تک درست ہے۔ تہذیبیں اکثر اپنے انحطاط کی خود ذمہ دار ہوتی ہیں لیکن خود اپنے ہاتھوں تباہی کے اِس عمل کو بعض بیرونی عوامل مزید تیز کر دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر روم کی سلطنت غیر ضروری توسیع، آب و ہوا میں تبدیلی، خراب ہوتے قدرتی ماحول اور کمزور قیادت جیسے مسائل سے دوچار تھی۔ لیکن پانچویں صدی میں وزگوتھ اور وینڈل قبائل کے حملوں نے سلطنتِ روم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
سلطنتیں اکثر بہت تیزی سے منہدم ہو جاتی ہیں اور ان کی عظمت اِسے روکنے میں کوئی مدد نہیں کر پاتی۔
سنہ 390 میں سلطنتِ روم 19 لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ صرف پانچ سال بعد یہ علاقہ سمٹ کر ساڑھے سات لاکھ مربع میل رہ گیا تھا۔ اور پھر سنہ 476 تک ماضی کی اِس عظیم الشان سلطنت کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
ہمارا قدیم ماضی ناکامیوں سے بھرا ہوا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی میں وجود کے خطرات کے مطالعے کے شعبے میں اپنی تحقیق کے ایک حصے کے طور پر میں تاریخ کے بخیے ادھیڑ کر یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ سلطنتیں کیوں زوال کا شکار ہوتی ہیں۔
تاریخ میں تہذیبوں کا عروج اور زوال ہماری جدید تہذیب کے بارے میں کیا بتا سکتا ہے۔ وہ کون سی قوتیں ہوتی ہیں جو تہذیبوں کی تباہی میں یا اِس تباہی کو ٹالنے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ کیا آج ہم اِسی طرز کے کسی تاریخی دور سے گزر رہے ہیں۔
تہذیب کی کوئی واضح تعریف نہیں
ماہرِ تاریخ لیوک کیمپ کے مطابق قدیم تہذیبوں کے زوال کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ آج ہمیں کتنے بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ اشارے کچھ اچھے نہیں ہیں۔
ماضی کی تہذیبوں کو دیکھنے کا پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ ان کے دور کی طوالت کا موازنہ کیا جائے۔ یہ کام اِس لیے مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ تہذیب کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے اور قدیم تہذیبوں کے عروج و زوال کی ہمہ گیر معلومات بھی نہیں ہیں۔
آبادی کا مسلسل اور تیزی سے کم ہونا، شناخت اور سماجی اور معاشی پیچیدگیوں کو تہذیبوں کے زوال کی تعریف کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ تشدد کے استعمال پر حکومت اپنی اجارہ داری برقرار نہیں رکھ پاتی جس کے نتیجے میں عوامی سہولیات خستہ حال اور امن و امان انتہائی خراب ہو جاتا ہے۔
ماضی کی تمام تہذیبوں نے ایسے ہی انجام کا سامنا کیا ہے۔ کچھ تہذیبیں ایسی صورتحال سے نکل گئی اور انھوں نے نئی شکل اختیار کر لی جیسے چینی اور مصری تہذیبیں لیکن بعض تہذیبوں کا زوال مستقل ثابت ہوا۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ جدید عالمی تہذیب کے بارے میں ماضی ہمیں کیا بتا سکتا ہے۔ کیا ماضی کی زرعی سلطنتوں سے حاصل ہونے والے سبق 18ویں صدی کے بعد کے صنعتی سرمایہ داری کے دور پر بھی لاگو ہو سکتے ہیں۔
ماہر تاریخ دان لیوک کہتے ہیں کہ ’میری رائے کے مطابق یہ ہو سکتے ہیں۔‘
ماضی اور حال کے معاشرے صرف ایسے پیچیدہ نظام ہیں جو افراد اور ٹیکنالوجی پر مشتمل ہیں۔
‘نارمل ایکسیڈنٹس’ کی تھیوری کے مطابق ٹیکنالوجی کے پیچیدہ نظام متواتر ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ لہذا تہذیبوں کے لیے زوال ایک عام سا عمل ہو سکتا ہے چاہے ان کی قد و قامت اور سطح کچھ بھی ہو۔
آج ہم ٹیکنالوجی کے اعتبار سے چاہے کتنے ہی آگے کیوں نہ ہوں لیکن اِس سے یہ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ساتھ بھی وہی نہ ہو جو ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ ہوا۔ ہم نے ٹیکنالوجی سے متعلق جو نئی صلاحیتیں پیدا کی ہیں ان کی وجہ سے ہمیں نئے اور غیرمعمولی چیلنجز کا سامنا ہے۔
اب ہماری جدید تہذیب کی وسعت عالمی سطح پر ہی کیوں نہ ہو لیکن سلطنتیں، چاہے وہ مضبوط اور پھلتی پھولتی ہوں یا نئی ہوں، دونوں ہی زوال کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اِس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ بڑا سائز کسی معاشرے کو تحلیل ہونے سے روک سکتا ہے۔ ہمارے عالمی معاشی نظام میں بحران کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہے کیونکہ یہ مضبوطی سے جڑا ہوا اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والا نظام ہے۔
کیا ماضی کی تہذیبوں کا انجام ہمارے مستقبل کے لیے نقشۂ راہ ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اُن رجحانات اور عوامل کا جائزہ لینا ہو گا جو قدیم تہذیبوں کے زوال سے پہلے موجود تھے اور یہ آج بھی کیسے سامنے آ رہے ہیں۔
تاریخ اور علمِ بشریات کے ماہرین نے تہذیبوں کے زوال کی کئی تشریحات پیش کی ہیں لیکن اِس سلسلے میں کوئی بھی ایک متفقہ نظریہ نہیں ہے۔
آب و ہوا میں تبدیلی
آب و ہوا میں غیر معمولی تبدیلی کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ خراب فصلوں، بھوک و افلاس اور وسیع علاقوں کے صحراوں میں بدل جانے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ قدیم تہذیبوں مثلاً اناسازی، تیواناکو اکاڈینز، ماین، رومن اور کئی دوسری تہذیبوں کا زوال اور خشک سالی سمیت آب و ہوا میں دیگر تبدیلیاں ایک ساتھ رونما ہوئیں۔
ماحول کی تباہی
جب معاشرے اپنے قدرتی ماحول کو اس کی گنجائش اور صلاحیت کا خیال رکھے بغیر بے دریغ استعمال کرتے ہیں تو یہ بھی تہذیبوں کے زوال کی ایک وجہ بن سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق جنگلوں کی بے دریغ کٹائی، پانی کی آلودگی، خراب مٹی اور حیاتیاتی تنوع میں کمی وہ عناصر ہیں جو زوال میں تیزی کا سبب بن سکتے ہیں۔
عدم مساوات اور طاقت کی مرکزیت
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور سیاسی عدم مساوات وہ عناصر ہیں جن کا نتیجہ سماجی ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ اِسی طرح سیاسی طاقت کے چند ہاتھوں تک محدود رہنے سے بھی معاشرے بے چینی، دباؤ اور دوسرے سماجی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع، سماجی اور معاشی مسائل کے خلاف مدافعت کی معاشرتی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔
قدیم معاشروں کی شماریاتی تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ عدم مساوات اور آبادی کی نوعیت کا سیاسی تشدد سے کیا تعلق ہے۔ عدم مساوات معاشروں میں مجموعی یکجہتی کو نقصان پہنچاتی ہے جس کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔
بیرونی مصیبتیں
بیرونی عناصر میں جنگ، قدرتی آفات، قحط اور وباء شامل ہے۔ مثال کے طور پر اگر جنگ کی بات کریں تو ایزٹک سلطنت کا خاتمہ ہسپانوی حملہ آوروں کے ہاتھوں ہوا۔ جبکہ اکثر ابتدائی زرعی معاشرے جان لیوا وباؤں کی وجہ سے اپنے اختتام کو پہنچے۔
انسانوں کی گنجان آبادیوں اور مویشیوں کے ایک ساتھ رہنے اور گندگی نے بیماریوں کا پھیلنا یقینی اور آفت خیز بنا دیا۔ کبھی کبھی ایک آفت دوسری آفت کے ساتھ آتی ہے جیسے ہسپانوی حملہ آور سیلمونیلا جیسی بیماری بھی اپنے ساتھ لائے۔
خراب قسمت
مختلف سلطنتوں کے شماریاتی تجزیے اِس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ زوال بے ترتیب اور زمانے سے ماورا ہوتا ہے۔ بے شمار کتابوں اور مضامین کی موجودگی کے باوجود ہمارے پاس کوئی طے شدہ تعریف نہیں ہے کہ تہذیبیں کیوں زوال پذیر ہوتی ہیں۔
جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ جن عناصر کا ذکر کیا گیا ہے وہ تمام اِس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ زوال وہ نکتۂ آغاز ہے جب کئی منفی عناصر اکھٹا ہو کر کسی معاشرے کی قوت اور صلاحیت سے زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔
ہم ان عناصر اور عوامل کا جائزہ لے کر یہ اندازہ لگا سکتے ہیں ہماری جدید تہذیب کے عروج و زوال کا کتنا امکان ہے۔
1: درجۂ حرارت
یہ آب و ہوا میں تبدیلی کا ایک واضح پیمانہ ہے۔
2: ایکولوجی (جانداروں کا آپس میں تعلق)
اِس سے قدرتی ماحول پر پڑنے والے مضر اثرات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔
اِس وقت دنیا میں یہ دونوں عناصر خرابی کو ظاہر کر رہے ہیں۔
3: عدم مساوات
اِس کا حساب لگانا زیادہ مشکل کام ہے۔ جینی انڈیکس کے مطابق عالمی سطح پر عدم مساوات کم ہوئی ہے لیکن انفرادی طور پر کچھ ممالک میں اِس میں اضافہ ہوا ہے۔
تاہم جینی انڈیکس کا طریقۂ کار عدم مساوات کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر ایک شخص ایک ڈالر کماتا ہے اور دوسرا شخص ایک لاکھ ڈالر اور دونوں کی کمائی میں دگنا اضافہ ہو جاتا ہے تو جینی انڈیکس کمائی میں برابر اضافے کو ظاہر کرے گا لیکن یہ نہیں بتائے گا کہ دونوں کی کمائی میں پہلے ننانوے ہزار نو سو ننانوے کا فرق تھا جس میں ایک لاکھ ڈالر کا اضافہ ہو گیا ہے یعنی عدم مساوات مزید بڑھ گئی ہے۔
اس زاویے سے اگر دیکھا جائے تو دنیا کے ایک فیصد اور ننانوے فیصد لوگوں کے درمیان معاشی عدم مساوات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
کسی حد تک مثبت پہلو یہ ہے کہ زوال کے یہ پیمانے اور عوامل صورتحال کی مکمل عکاسی نہیں کرتے۔ معاشروں میں لچک اور مشکل حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت زوال کو روک یا ٹال سکتی ہے۔
مثال کے طور پر اکنامک کومپلیکسٹی انڈیکس کے مطابق سنہ 1960 اور 70 کے مقابلے میں آج عالمی سطح پر معاشی تنوع میں اضافہ ہوا ہے۔ معاشی تنوع سے مراد کسی بھی ملک کی برآمدات میں تنوع، نفاست اور مہارت ہے۔ آج مخلتف ممالک اور اقوام کا ایک ہی طرح کی برآمدی اشیا پر انحصار کم ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کے لیے معاشی بحران کے خطرات کم ہوئے ہیں۔
مثال کے طور پر ایسا ملک جس نے صرف زرعی اشیا برآمد کرنے کے بجائے اپنے اندر معاشی تنوع پیدا کیا ہے اور دوسری اشیا بھی برآمد کرنے کی قابلیت حاصل کر لی ہے وہ ماحول میں خرابی اور آب و ہوا میں تبدیلی کا بہتر مقابلہ کر سکتا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بڑی آفت کے بغیر ہی زوال شروع ہو جائے۔
سنہ 2017 میں بی بی سی فیوچر میں اپنے مضمون میں ریچل نیوور نے لکھا کہ ‘بعض مرتبہ تہذیبیں کسی شور شرابے کے بجائے خاموشی سے مٹ جاتی ہیں۔’
تاہم جب ہم ان تمام زوال اور اس کا مقابلہ کرنے والے عناصر کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک واضح پیغام ملتا ہے اور وہ یہ کہ ہمیں چوکس رہنا چاہیے۔ پرامید رہنے کے لیے بھی ہمارے پاس وجوہات ضرور موجود ہیں کیونکہ ہم میں آفات کا مقابلہ کرنے کی تخلیقی صلاحیتیں ہیں۔
تاہم ہماری دنیا ان شعبوں میں خرابی کا شکار ہے جو ماضی کی تہذیبوں کے زوال کا سبب بنے۔ آب و ہوا مسلسل تبدیل ہو رہی ہے، امیر اور غریب کے درمیان عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے، دنیا تیزی سے مزید پیچیدہ ہو رہی ہے اور ہماری طلب اپنے اِس سیارے کے ماحول کی صلاحیت اور گنجائش سے زیادہ ہے۔
صرف یہی نہیں، پریشان کن طور پر دنیا اب پہلے سے زیادہ منسلک اور ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے۔ ماضی میں زوال مخصوص علاقوں تک محدود رہتے تھے اور ان کی نوعیت عارضی بھی ہوتی تھی جس کے بعد لوگ آسانی سے زراعت یا شکار جیسے اپنے طرزِ زندگی کی جانب لوٹ جاتے تھے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ زوال کے دوران ہونے والی سماجی بدامنی میں لوگوں کے پاس تلوار، تیر اور کبھی کبھی بندوق جیسے بنیادی نوعیت کے ہتھیار ہوا کرتے تھے۔
آج کے معاشرتی زوال میں زیادہ مشکلات کا خدشہ ہے۔ آج ریاستوں اور بعض مرتبہ گروہوں کے پاس جو ہتھیار ہیں ان کی نوعیت بہت مختلف ہے۔ اِن ہتھیاروں میں کیمیائی، حیاتیاتی اور ایٹمی ہتھیار شامل ہیں۔ ایٹمی جنگ انسانوں کا مکمل خاتمہ کر سکتی ہے یا ہمیں پتھر کے زمانے میں پہنچا سکتی ہے۔
ایک طرف تو ہم معاشی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ طاقت ور اور سخت جان ہوتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف ہماری ٹیکنالوجی کی مہارت ہمارے لیے ایسے خطرات پیدا کر رہی ہے جو ماضی کی تہذیبوں کو نہیں تھے۔
مثال کے طور پر آب و ہوا اور موسم کی جن تبدیلیوں نے ماین اور اناسازی تہذیبوں کو روند ڈالا تھا وہ ان تبدیلیوں سے مختلف ہیں جن کا آج ہمیں سامنا ہے۔ آج آب و ہوا میں تبدیلی عالمی سطح پر ہے، انسانوں کی پیدا کردہ، تیز رفتار اور شدید ہے۔
تاہم ہماری تہذیب کا زوال ناگزیر نہیں ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہم زوال کی جانب گامزن ضرور ہیں لیکن ہمارے پاس سبق سیکھنے کے لیے ماضی کے معاشروں اور تہذیبوں کی مثالیں موجود ہیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے۔ زہریلی گیسوں کا اخراج کم کیا جا سکتا ہے، عدم مساوات کا خاتمہ، قدرتی ماحول میں خرابی کو ٹھیک کرنا، زبردست جدت اور معیشتوں میں تنوع کے ذریعے زوال کو روکا جا سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں تجاویز موجود ہیں، صرف سیاسی عزم کی کمی ہے۔
اگر ہم اندھوں کی طرح آگے بڑھتے گئے تو زوال ہماری منزل ہو گا۔ ہمارا ماضی ہم سے کچھ کہہ رہا ہے جو ہمیں سننا ہو گا ورنہ تباہی یقینی ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو