انسانی شرف (human dignity) دراصل وہ اہم بنیاد ہے جس پر موجودہ دور کے بیشتر سماجی وسیاسی اور معاشی نظریات قائم ہیں اور اسی پر حقوق انسانی کی پوری عمارت قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی شرف حقوق انسانی میں سے محض ایک حق نہیں بلکہ حقوق انسانی کی بنیاد ہے۔ ابھی حال میں عالم اسلام کے مشہور مفکر وفقیہ احمد ریسونی کا مقالہ شائع ہوا جس کا عنوان ہے انسانیة الانسان قبل حقوق الانسان (انسان کے حقوق سے پہلے انسان کی انسانیت) جس میں انھوں نے بھی تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ انسانی شرف کا مسئلہ حقوق انسانی سے نہ صرف اہم تر اور مقدم ہے بلکہ حقوق انسانی کا پورا ڈسکورس اسی پر قائم ہے۔ اور اس بات پر تمام انسانوں کا اتفاق بھی ہے کہ انسان بقیہ تمام مخلوقات سے افضل وبالا ہے۔ اور اس بات کی سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ انسان جب بھی حقوق کی بات کرتا ہے وہ کبھی غیر انسان کے لیے انھی حقوق کی بات نہیں کرتا جن کے حصول کے لیے وہ خود مستقل مہمیں چلاتا ہے اور ہر طرح کی جدوجہد کرتا ہے۔ اسی بات کو استاذ احمد ریسونی یوں کہتے ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو بقیہ مخلوقات پر یک گونہ فضیلت، خصوصیت اور امتیاز حاصل ہے جس کی بنیاد پر وہ تمام حقوق انسانی کا مستحق ٹھہرتا ہے ورنہ اگر ہم تمام مخلوقات میں یکسانیت اور برابری کو تسلیم کرلیتے تو ہمارا بیانیہ بدل جاتا اور ہم کہتے: بہت ہوئی حقوق انسانی کی بات! انسان نے تاریخ کے اتنے طویل دورانیے میں بہت حقوق لے لیے بلکہ دوسری مخلوقات کی بنسبت ہزارہا گنا زیادہ لے لیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بقیہ مخلوقات کے حقوق کی بات کریں جو عرصہائے دراز سے شدید استحصال اور حد درجہ بے توجہی کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ یہ انسان کے ذریعے کیوں ہو؟ تاکہ دوبارہ اس کا فائدہ انسان ہی کو حاصل ہو۔
لیکن اس کے باوجود اگر موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے یا تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی شرف کا تصورنظریاتی اور عملی دونوں سطحوں پر متعدد مشکلات اور کوتاہیوں کا سامنا کرتا رہا ہے۔ انسانی شرف پر گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ خود انسان سے متعلق کچھ گفتگو سامنے آجائے۔ انسان کی تعریف کیا ہے؟ انسان کی طبیعت اور فطرت کیا ہے؟ انسان کی تخلیق کی داستان کیا ہے؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جو انسانی شرف کے نظریاتی اور عملی دونوں پہلووں پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتے ہیں اور ان پر مذہبیات اور فلسفہ سے لے کر سائنس اور سماجی علوم تمام اپنے اپنے زاویے سے سوچنے اور جواب فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ روشن خیالی اور جدید فلسفوں کے حوالوں سے معروف اہم ترین مفکر وفلسفی کانٹ کے مطابق انسان کی تعریف یہ ہے کہ جس کے پاس عقل ہو۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عاقل جاندار طے شدہ اخلاقی قدروں کا پاس ولحاظ رکھے ورنہ شرف انسانی کا مستحق وہ پوری طرح نہیں ٹھیر سکتا۔ البتہ انسان کی تخلیق اور وجود کی اصل کے حوالے سے اس کے یہاں واضح موقف سامنے نہیں آتا۔ سماجی علوم میں خصوصا علم عمرانیات میں ایک عرصے تک علم حیاتیات کا بہت گہرا اثر رہا، چناں چہ اس دوران انسان کی تعریف میں تخلیق کا ارتقائی تصور غالب رہا، گویا انسان بھی اپنی اصل کے اعتبار سے عام جانداروں میں سے ایک ہے اور ارتقاکے نتیجے میں آج یہ بقیہ جانداروں سے زیادہ اعلی وبرتر مقام پر ہے۔ اسی تناظر میں مغربی برتری کا تصور پیش کرنا بھی آسان ہوگیا، اس طور سے کہ ارتقا کا سفر بھی الگ الگ علاقوں میں الگ الگ رفتار سے چل رہا ہے اور آج ارتقا کا سب سے اعلی اسٹیج یا سب سے ترقی یافتہ حالت مغربی دنیا میں ہے۔ البتہ جب عمرانیات کی تحقیقات کا سفر مزید بڑھتا رہا اور ماہرین نے اس تصور کو کم زور اور مغرب کی خود پسندی کے نتیجے کے طور پر محسوس کر لیا تو پھر یہ تصور پیچھے رہ گیا اور اب جب کہ مابعد جدیدیت اور بڑے نظریات کے مقابلے میں چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں آزاد اور خود مختار تحقیقات کا رجحان عام ہونے لگا تو ایسے تصورات اور ایسے سوالات دونوں سے پرہیز کرنا پسند کیا جانے لگا۔ اب انسان کی کوئی مخصوص تعریف کرنے کے بجائے ہر علاقے اور آبادی کے اپنے اپنے تصورات کو خود انھی کے تاریخی، مذہبی اور سماجی تناظر میں سمجھنے کی کوشش پر زیادہ زور دیا جا نے لگا۔
مذاہب کے حوالے سے گفتگو کی جائے تو ابراہیمی مذاہب کا اس سلسلے میں تو اتفاق ہے کہ تمام انسان ایک ماں باپ یعنی آدم وحوا کی اولاد ہیں لیکن اس کے آگے کئی بڑے بڑے اختلاف ہیں جن کا اثر انسانی شرف کے تصور پر پڑتا ہے۔ مثال کے طور عیسائیت کے مطابق انسان پیدائشی گناہگار پیدا ہوتا ہے یا یہودیت کے نزدیک اصل شرف صرف یہودی ہی کو حاصل ہے اور یہودی صرف پیدائشی ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف دوسرے مذاہب ہیں جو انسانوں کی تخلیق کے بارے میں بنیادی طور سے ہی ایسا تصور پیش کرتے ہیں جس میں انسانی شرف کا تصور شامل کرنا اور دونوں کا ساتھ چلنا بہت دشوار ہوتا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال بعض مشرقی مذاہب کا تصور تخلیق انسان ہے جس کے مطابق انسانوں کے پیدائشی طور پر کچھ طبقات ہیں۔ ایک طبقہ مطلق اور غیر مشروط شرف کا مستحق ہے تو ایک سرے سے کسی طرح کی عزت وتکریم کے لائق نہیں ہے۔ اسی طرح کسی طبقے کی عزت زیادہ ہے تو کسی طبقے کی کم۔
ان سب کے بالمقابل اسلام کا تصور انسانیت بہت صاف، واضح اور دلکش ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام انسانوں کو اللہ تعالی نے ایک ماں باپ سے پیدا کیا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا (الحجرات: ۱۳) لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرو۔
پھر اللہ تعالی نے ایک متعین مدت تک کے لیے انسانوں کو اس زمین پر خلافت اور تعمیر وجہاںبانی کا ذمہ دار بنایا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقرة: ۳۰) اور یاد کرنے قابل ہے وہ وقت جب تمیہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔
انسان کو بنیادی طور پر آزاد پیدا کیا اور اس کے سامنے خیر وشر کے راستے واضح کردئے اور خیر پر ابھارنے کے لیے داخلی وخارجی بہت سے انتظامات کئےاور نیک عمل کرنے والوں کے لیے آخرت میں اچھے انجام کا وعدہ کیا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا. فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا. قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا. وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا. (الشمس: ۷۔ ۱۰) اور قسم نفس انسانی کی اور اس ذات کی جس نے اسے ٹھیک بنایا پھر اس کی بدی اور پرییزگاری کا شعور اس پر الہام کردیا۔ یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے گناہوں میں ملوث کیا۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلً (الملک: ۲) جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔
انسان کی اہم ترین اور وہ خصوصیات جو انسان اور غیر انسان میں فرق کریں یا انسان کو انسانی شرف کا مستحق بنائیں دونوں طرح کی ہیں۔ ظاہری اور جسمانی بھی اور معنوی بھی۔ یعنی انسان کا وجود دوسرے جانداروں سے ارتقا کا نتیجہ نہیں بلکہ انسان کو اس ساخت اور شکل میں خالق کائنات نے بہت اہتمام سے تخلیق کیا اور اس کی تخلیق بقیہ جانداروں کی تخلیق سے زیادہ اہتمام اور اہمیت سے ہوئی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ( التین: ۴)چناں چہ انسان کی تعریف میں ہر وہ انسان آئے گا جس کی تخلیق خود اس بات کی دلیل ہو کہ وہ انسان ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان کی تعریف ایسی از خود عیاں ہے کہ اس کی لفظوں میں تعریف کرنا نہ تو ممکن ہے نا ہی ضروری۔ دوسری طرف اس کی معنوی خصوصیات بھی ہیں جیسے عقلی پہلو، اخلاقی پہلو، روحانی پہلو۔ مغربی مفکرین نے عقلی پہلو کا تو خوب اعتراف کیا اور کسی حد تک اخلاقی پہلو کا بھی اعتراف کیا لیکن روحانی پہلو ان کی نظر سے بہت زیادہ اوجھل رہا۔ اس کی سب واضح مثال کانٹ کا تصور انسان اور انسانی شرف ہے جہاں وہ عقلی اور اخلاقی پہلو کو تو تاکید سے پیش کرتا ہے لیکن اس کے یہاں روحانی پہلو پوری طرح نظر انداز ہوگیا۔
انسانی شرف معاصر دنیا میں جدید دور میں انسانی شرف کے تعلق سے سب سے اہم اور مقبول ترین تصور پیش کرنے والوں میں کانٹ کا نام سر فہرست آتا ہے۔ کانٹ کے مطابق انسانی شرف کا مختصر اور جامع ترین مفہوم یہ ہوگا کہ انسان کے ساتھ وسائل کے طور پر کوئی معاملہ نہ کیا جائے بلکہ انسان خود میں ہمیشہ غایت ہے۔ مزید وضاحت میں کانٹ کہتا ہے کہ انسان کے شرف کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو پوری آزادی حاصل ہو اور وہ خود اپنی آزادی سے اپنے لیے قانون بنائیں اور ان کا بنایا ہوا قانون عالمی قانون ہو۔
اقوام متحدہ کے منشور میں انسانی شرف کا مطلب سمجھنا ہو تواس کے مقدمے میں اس کی تفصیلی وضاحت موجود ہے۔ جس کی پہلی شق بہت بنیادی اور اہم ہے۔ اس کے مطابق: تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور وہ عزت وشرف میں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ وہ تمام عقل وضمیر کی دولت سے آراستہ ہیں اور ان کو بھائی چارگی کے ساتھ ایک دوسرے سے برتاو کرنا چاہیے۔ اصولی طور پر یہ بہت مستحسن اور قابل تعریف قدم ہے۔ راشد غنوشی اقوام متحدہ کے اس منشور کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ پیش قدمی اپنے آپ میں لائق تعریف ہے اور یہ پیش قدمی دراصل انسانی ضمیر کی اس بیداری سے عبارت ہے جو انسانیت کے کم زور طبقات پر روا ظلم وزیادتی کے حوالے سے پیدا ہوئی۔ البتہ عملی طور پر اس میں نفاق اور دوہرے معیار کا خاصا رنگ ہے۔ چناں چہ وہ ڈکٹیٹر بھی اس کے معزز رکن ہیں جو حقوق انسانی کے پس پردہ ہر طرح کا ظلم وبربریت پھیلا رہے ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کا طرز عمل کم زور ممالک کے ساتھ کچھ اور اور امریکہ اسرائیل جیسے طاقتور ممالک کے ساتھ کچھ اور ہوتا ہے۔ اگرچہ انسانی شرف کو عالمی سطح پر ایک اصول وضابطے کی شکل میں پیش کرنے کا کام موجودہ دور میں مغربی دنیا کی جانب سے سامنے آیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ان چند مسائل میں سے ہے جس کی بہت واضح تعلیم اللہ تعالی نے قرآن مجید اور سنت نبوی کے ذریعے بہت پہلے مسلمانوں کو دی، لیکن مسلمانوں نے اس کے تعلق سے اپنے کردار کو کما حقہ انجام دینے میں کوتاہی برتی، ان مسائل میں سے ایک اور بہت واضح مثال غلامی کا مسئلہ ہے جو خود انسانی شرف سے براہ راست متعلق بھی ہے۔
قرآن مجید کے مطابق تمام انسانوں کو اللہ تعالی نے ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا اور سب کو برابر کا شرف عطا کیا۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ۔ (الحجرات: ۱۳) لوگوں ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔
دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا (الاسراء: ۷۰) اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو خشکی وتری میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لوگو! بلا شبہ تمہارا رب ایک ہے، تمہارے باپ ایک ہیں، سنو! کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ نہ تو سرخ کو سیاہ پر کوئی فضیلت ہے اورنہ ہی سیاہ کو سرخ پر۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔
چناں چہ تمام انسانوں کی برابری اور مساوات کا معاملہ ہو یا تمام انسانوں کی تکریم اور شرف کا معاملہ ہو قرآنی تعلیمات اس سلسلے میں بالکل دوٹوک اور واضح ہیں۔
البتہ تکریم انسانیت کے تصور کے عملی پہلووں پر مسلم سماج میں خصوصی جائزے اور توجہ کی ضرورت ہے۔
انسانی شرف اور معاشرتی مسائل: معاشرے کے تمام مسائل میں شرف انسانی کے تصور کی چھاپ بہت واضح طور سے نظر آنی چاہیے۔ ہر انسان کے ساتھ برابری کا سلوک بھی ہونا چاہیے اور ہر انسان کو عزت بھی ملنی چاہیے۔ اور اس سلسلے میں کوئی بھی معاملہ کسی ایسی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے جس میں سماج میں اونچ نیچ کے احساسات پیدا ہوں۔ واضح رہے کہ یہ اونچ نیچ اور تفریق کا عمل کبھی تو باقاعدہ علی الاعلان ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی خاموشی کے ساتھ بھی یہ عمل جاری ہوتا ہے اور کسی مرحلے تک پہونچ کر حقیقت امر ظاہر ہوجاتی ہے۔ دونوں کی ایک ایک مثال پیش کی جاتی ہے، تاکہ بقیہ مثالیں انھی پر قیاس کی جاسکیں۔ علی الاعلان اونچ نیچ اور تفریق کی ایک اہم مثال مسلم معاشرے میں کفاءت کا عار والا تصور ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کسی مخصوص سماج کی مخصوص تقسیموں پر مبنی استحکام اور استقرار کی غرض سے پیش کیا جانے والا تصور وقت کے بدلنے اور سماجی ڈھانچے اور حالات کے تبدیل ہونے کے ساتھ ایسی چیزوں سے وابستہ ہوگیا جن میں واضح طور سے اونچ نیچ کا تصور بھی شامل تھا اور طبقاتی تفریق بھی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کفاءت کا پورا تصور درحقیقت ازدواجی زندگی کے استقرار کے پیش نظر تھا اور یہ ایک فطری بات ہے کہ کامیاب رشتوں کے لیے ذہنی، دینی، مالی اور کاروباری مناسبتیں جتنی زیادہ ہوں گی، رشتے کے کامیاب ہونے کی امید بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ البتہ یہ صرف اسی پہلو تک محدود رہتا تو قابل اعتراض نہ تھا۔ مناسبتوں کا کم ہونا یا کسی مناسبت کی موجودگی میں بقیہ مناسبتیں نظر انداز کردینا بھی ایک اختیاری عمل ہونا چاہیے۔ اونچ نیچ کی بنیاد پر رونما ہونے والی ذات پات نہ تو اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں اور نہ ہی مسلم معاشرے میں ان کے لیے کوئی جگہ ہونی چاہیے۔ دوسرے طرز کی ایک اہم مثال امریکہ میں موجود سیاہ فام لوگوں کی ہے جن کو علی الاعلان تو کسی تفریق یا اونچ نیچ کا نوالہ نہیں بنایا گیا، لیکن سفید فام لوگوں کے اندر ان کے تعلق سے تفریق کا عنصر خاموشی سے پلتا رہتا ہے، انجام کار وقتا فوقتا چیزیں اس درجہ گھناونی ہوجاتی ہیں کہ ملکی وعالمی سطح پر مظاہرات اور احتجاج کی نوبت پہنچ جاتی ہے۔
شرف انسانی اور سیاسی نظم ونسق: سیاسی نظم وضبط کا مقصد واضح طور سے معاشرے کی خدمت اور معاشرے میں پیش آنے والے مسائل کا بہتر سے بہتر حل کی فراہمی ہونا چاہیے۔ اسی لیےسیاسی سطح پر انسانوں کے بیچ کسی بھی نام سے اونچ نیچ کے رجحان کا پیدا ہونا سیاست کے بنیادی مقصد اور اہداف کے سراسر خلاف ہے۔ اسی طرح سے بنا جرم ثابت ہوئے اور ثبوت فراہم ہوئے سالہا سال کسی کو جیل کی کال کوٹھری میں بند کیے رکھنا بھی شرف انسانی کے تصور کے بالکل برعکس ہے۔ بلکہ ہر چیز کی سزا کے لیے سب سے پہلے جیل بندی کی سزا خود شرف انسانی کے خلاف اور استعمار اور غلامی کے دور کی یادگار ہے اور بدقسمتی سے دنیا کے ہر ملک میں عام ہے۔
انسانی شرف اور اخلاقیات: اللہ نے انسان کو سب سے بہترین شکل میں پیدا کیا اور اس پر انسان کو اپنے خالق کا بے پناہ شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس تناظر میں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت سے کھلواڑ کرنا شرف انسانی کے خلاف ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے مغربی ممالک میں جنسیات سے متعلق تیزی سے پھیلتی ہوئی ان کوششوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے، جو آزادی کے نام پر اس بات کی دعوت بھی دیتی ہیں اور ابھارتی بھی ہیں کہ انسان اپنی جنسی شناخت کے ساتھ من چاہا کھیل کرے۔ ایک لڑکا خود کو لڑکی کی شناخت دے دے اور لڑکی لڑکے کی شناخت لے لے اور اسی سلسلے میں نئی نئی جنسی شناختوں کی بھی ایجاد ہونے لگی، بلکہ اب اس بات پر زور ہے کہ بچپن ہی سے اسکولوں میں بچوں کو یہ بھی پڑھا اور سکھا دیا جائے کہ وہ خود اپنی جنس طے کر سکتے ہیں اپنی مرضی سے۔ اور حیرت اس بات پر ہے کہ یہ سب وہاں ہو رہا ہے جہاں سے شرف انسانی کے بڑے بڑے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ چیز سراسر شرف انسانی کے خلاف ہے کہ انسان رب کی بنائی ہوئی اس احسن بناوٹ میں من مانی مداخلت کرے۔ خلاصہ: شرف انسانی انسانیت کی سب سے پہلی ضروری اور اہم قدر ہےجس کا اعتراف جدید اور مغربی دنیا میں بھی ہے اور اسلامی تعلیمات میں پہلے روز سے اس کو غیر معمولی اہمیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مغربی دنیا میں اگرچہ اس کے نعرے زیادہ ہیں اور عالمی سطح پر اس کو ایک منظم اور اصولی شکل میں پیش کرنے میں ان کا بڑا کردار ہے جس کی کھلے دل سے تحسین ہونی چاہیے لیکن ساتھ ہی یہ بھی سامنے رہے کہ عملی طور پر وہاں دوہرا پن اور نفاق کا بہت گہرا اثر ہے۔ ایک طرف مغربی حکومتیں اسلام کا مذاق بنانے والے اہل قلم کو شرف انسانی کی دہائی دے کر انھیں ہر طرح کا سپورٹ دیتی ہیں وہیں دوسری طرف وہ عراق اور افغانستان میں لاکھوں انسانی جانوں کا بے جھجھک صفایا کردیتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس روز اول سے غیر معمولی وضاحت اور صراحت کے ساتھ انسانی شرف کی تمام تعلیمات اور ہدایات موجود ہیں لیکن نظریاتی وعملی سطح پر ان کا مؤثر کردار نظر نہیں آتا ہے۔