چینی وزارت برائے قومی دفاع نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے اپنی سالانہ کانگریشنل رپورٹ میں چینی فوجی پالیسیوں کو ‘مسخ‘ کر کے پیش کیا ہے۔ چینی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل وو شین نے امریکی وزارت دفاع کی اس رپورٹ کو ‘اشتعال انگیز‘ بھی قرار دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے دونوں ملکوں کے فوجوں کے باہمی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
یکم ستمبر کو جاری کردہ اس امریکی رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ چینی فوج کی ‘ماڈرنائزیشن‘ کو نظر انداز کیا گیا تو امریکی قومی مفادات کو شدید نقصانات پہنچنے کا خدشہ ہو گا۔ اس رپورٹ میں بالخصوص چینی فوج میں ترقی اور اس کے عزائم پر بات کی گئی ہے۔
اس رپورٹ کے جواب میں کرنل شین نے کہا، ”کئی برسوں کے شواہد بتاتے ہیں کہ یہ امریکا ہی ہے، جس نے علاقائی بدامنی پھیلائی، بین الاقوامی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی اور عالمی امن کو تباہ کیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران امریکی اعمال ہی کی وجہ سے عراق، شام، لیبیا اور دیگر ممالک میں آٹھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک یا بے گھر ہوئے۔
کرنل شین کا یہ بھی کہنا تھا کہ خود احتسابی کے بجائے امریکا نے چینی فوج کے بارے میں غلط بیانات جاری کیے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”ہم امریکا پر زور دیتے ہیں کہ وہ چینی قومی دفاع اور فوجی عزائم پر حقیقی بنیادوں پر غور کرے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ چین کی فوجی صلاحتیں صرف دفاعی نوعیت کی ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع کی چینی فوج کے بارے میں رپورٹ 150 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، جس میں پیپلز لبریشن آرمی کی تیکنیکی صلاحیتوں، بنیادی نظریات، حتمی عزائم کے بارے میں تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔ اس رپورٹ میں زیادہ تر تجزیہ چین کی تائیوان کے بارے میں حکمت عملی کا کیا گیا ہے۔ تائیوان امریکا کا ایک اہم اتحادی ہے، جیسے چین اپنا ‘اٹوٹ انگ‘ قرار دیتا ہے۔