گزشتہ دنوں حکومت پاکستان نے ایف اے ٹی ایف (منی لانڈرنگ اور دوسرے متعلقہ مالی معاملات دیکھنے والا عالمی ادارہ) کی ڈیمانڈ بلکہ دی گئی لائن آف ایکشن کے عین مطابق ایک بل منظور کروایا۔ جسکی منظوری کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بڑے اہتمام سے بلایا گیاتھا۔
حکومت نے اپنے اور اتحادیوں کے ارکان کی مکمل شرکت اور حاضری کو یقینی بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اہتمام کیا کہ اپوزیشن کے ارکان کی حاضری مکمل نہ ہو پائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بل حکومتی و اتحادی ارکان کی کثرت رائے سے منظور کروا دیا جائے اور اپوزیشن کوئی کھنڈٹ نہ ڈال سکے۔ دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلانا بھی اسی خاص اہتمام کا حصہ تھا، کیونکہ حکومت کو قومی اسمبلی میں معمولی اکثریت تو حاصل ہے، مگر سینیٹ میں حزب اختلاف کو عددی برتری حاصل ہے۔ حکومت کو خدشہ تھا کہ بل کو پروسیجر اور رولز کے مطابق پہلے اسمبلی اور پھر اس کے بعد سینیٹ میں پیش کیا گیا تو اس کی منظوری آزمائش سے دو چار ہو سکتی ہے۔ قومی اسمبلی سے تو بل منظور ہو جاتا مگر سینیٹ سے حزب مخالف کی اکثریت کے بیچ سے بل منظور کروا لینا بہر حال ایک مشکل معاملہ تھا۔ سو حکومت نے رولز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا جوائنٹ سیشن بلایا اور اپوزیشن کے تیس سے زائد ارکان کی غیر حاضری کے باعث مجموعی طور پر اپنی عددی اکثریت کے بَل پر یہ بِل منظور کروا لیا۔
اب آتے ہیں اس بل کی طرف، حکومت شروع سے ہی کہتی آئی ہے کہ یہ بل ریاست کے مفاد میں انتہائی ضروری ہے، اسے من و عن منظور کرنے میں ہی ریاست کا مفاد پوشیدہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بل کا ڈرافٹ بنا بنایا آیا تھا اور "حکم” ہوا تھا کہ اسے جوں کے توں منظور کروا لیا جائے؟؟ اگر یہ معاملہ تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی بیرونی قوت اور عالمی ادارہ جب چاہے ہماری گردن پر انگوٹھا رکھ کر اپنی مرضی کے قوانین ہم سے منظور کروا سکتا ہے۔ ذرا سوچئے یہ ہماری قومی خود مختاری کیلئے کس قدر افسوس اور شرم کی بات ہے۔اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہماری سالمیت شدید خطرے میں ہے، اور اگر اس بل کا مسودہ باہر سے نہیں آیا تھا اور اس کا جوں کا توں منظور کرنا ضروری نہیں تھا، تو پارلیمان کو اس پہ بحث کرنے کی اجازت کیوں نہ دی گئی اور بہ اصرار اسے خاموشی سے پیش کرکے منظوری کا ٹھپا کیوں لگوایا گیا؟
بہر صورت اس بل کو جس عجلت اور جلد بازی میں پیش اور منظور کیا گیا وہ کسی طور پر بھی مناسب اور قابل تحسین عمل ہرگز نہیں کہلا سکتا۔
اس بل کی منظوری کے بعد اب چھن چھن کر جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں اس سے دینی حلقوں کیلئے بہت ہی خطرے کی بات سر اٹھا رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کی کچھ شقیں ایسی ہیں کہ ان کے لاگو ہونے کے بعد سوائے چند کے کوئی مدرسہ و مسجد محفوظ نہیں رہے گی اور آئندہ مساجد اور مدارس کی آزادی سے تعمیر کا سلسلہ بھی موقوف ہو جائے گا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو کچھ حلقوں کے یہ خدشات درست معلوم ہوتے ہیں کہ اس بار محرم کے دوران سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ناموس صحابہ کے حوالے سے ناگوار فضا تشکیل دے کر مذہبی حلقوں کو اس میں الجھایا گیا اور پھر اس سے فائدہ اٹھا کر دینی حلقوں کو جکڑنے کیلئے ریاستی مفاد کی آڑ میں یہ قانون منظور کروایا گیا اور دینی حلقوں کو ہوا تک نہیں لگنے دی گئی۔
جب سے یہ بل پاس ہوا ہے اور اس کی تفصیل سامنے آنا شروع ہوگئی ہے ملک بھر کے دینی حلقوں میں شدید بے چینی اور اضطراب پایا جا رہا ہے۔ ہر طرف سراسیمگی اور بے یقینی کا ماحول ہے۔ میری ذمے دار دینی قیادت سے گزارش ہے کہ وہ اس بل کا تفصیل سے جائزہ لے کر قوم کی رہنمائی کرے۔ اگر واقعی ایسی کوئی بات ہے تو مناسب انداز میں اس کو ہائی لائٹ کیا جائے اور متعلقہ حلقوں سے بات کرکے دینی حلقوں کی تشویش دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ وطن عزیز کسی بھی طرح بے سکونی اور عدم استحکام کا متحمل نہیں ہے اور اگر اس بل میں ایسی کوئی بات نہیں ہے تو یہ بہت اچھی بات ہوگی، تاہم اس کی قومی سطح پر وضاحت بھی ضروری ہے تاکہ دینی حلقے تشویش اور بے چینی کی کیفیت سے باہر آئیں۔ اللہ تعالیٰ وطن عزیز کو ہر شر اور آفت سے محفوظ رکھے اور اسے ترقی و استحکام نصیب فرمائے، آمین۔