امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ کابل حکومت پاکستان کے ساتھ سائیڈ ڈیل کرسکتی ہے، جس کی طالبان کے لیے تاریخی حمایت نے طویل عرصے تک تعلقات کو امتحان میں ڈالے رکھا۔
ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک جانب امریکا نے طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا شروع کردیا ہے جبکہ دوسری جانب طالبان اور افغان حکومت نے امن مذاکرات کا آغاز کردیا ہے جس کی رفتار خاصی سست ہے۔
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سفارتکاری میں ’مددگار‘ رہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے پیئرسن انسٹیٹیوٹ میں دوحہ سے بذریعہ ویڈیو لنک ایک فورم میں شرکت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ’ ہم داخلی امن کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک معاہدے کی کوشش کررہے ہیں‘۔
زلمے خلیل زاد نے بتایا کہ ’دونوں ممالک نے اس بات اتفاق کریں گی کہ ’وہ ایک دوسرے کے خلاف شدت پسند تنظیموں یا ایک دوسرے کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بننے والے گروہوں کو اپنی سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘۔
امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا اگر کابل اور طالبان معاہدے کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ پاکستان کے لیے اقتصادی مراعات دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسی معاشی وجوہات ہیں جو خطے کے لیے تبدیلی کا باعث ہوں گی لیکن اس کے لیے افغانستان میں امن آنا چاہیئے‘۔
خیال رہے کہ افغانستان میں 19 سال سے جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے طویل دور کے بعد رواں برس 29 فروری کو معاہدہ ہوا تھا۔
معاہدے کے 2 اہم نکات میں غیر ملکی افواج کا افغان سرزمین سے انخلا اور بین الافغان مذاکرات کا آغاز تھا جس کا آغاز 12 ستمبر کو قطر ے دارالحکومت دوحہ میں ہوچکا ہے۔
دوسری جانب افغان امن کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے حال ہی میں پاکستان کا 3 روزہ اہم دورہ کیا تھا جس کے دوران ایک موقع پر وزیر خارہج شاہ محمود قریشی نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، افغانستان کا سرپرست نہیں دوست بننا چاہتا ہے، یہ تبدیلی کا نمونہ ہے اور اگر ہمیں امن کے ساتھ رہ کر مشترکہ مستقبل تعمیر کرنا ہے تو یہ اس بات کی پہچان کا نیا احساس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا افغان عوام کے لیے واضح پیغام ہے کہ ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں اور نہ ہم آپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ بین الافغان مذاکرات اور بات چیت کے نتیجے میں جو بھی اتفاق رائے ہوگا ہم پاکستانی عوام افغانستان کے عوام کی خواہش کو قبول کریں گے اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔