عدالت عالیہ لاہور نے ناکافی شواہد کی بنیاد پر توہین مذہب کے الزام میں مقید عیسائی برادری کے ساون مسیح نامی ایک شخص کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ تفصیلی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے تاہم اپنے مختصر فیصلے میں عدالت نے ساون مسیح کو بری قرار دیا ہے اور اس پر لگائے گئے الزام کو جھوٹا الزام قرار دیا ہے۔
2013 جوزف کالونی ، بادامی باغ لاہور میں شاہد عمران نامی شخص نے ساون مسیح پر توہین مذہب کا الزام لگایا تھا، جس کے بعد جوزف کالونی پر مشتعل افراد نے حملہ کیا اور مسیحی اقلیتی آبادی کے سو سے زائد گھر جلادیے۔ ساون مسیح کو انتظامیہ نے گرفتار کرلیا اور ایک سال کی سماعت کے بعد ٹرائل کورٹ نے انہیں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ جوزف کالونی پر حملہ آوروں کو 2017 میں ناکافی شواہد کی بناپر بری کردیا گیا تھا۔
پاکستان میں توہین مذہب کا الزام لگاکر کسی بھی شخص کو پھنسادینا ایک معمول بن گیا ہے اور اس پر کسی کو کوئی پشیمانی یا افسوس نہیں کہ وہ کتنے بڑے گھناؤنے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔
یہ انتہائی سنگین جرم ہے کہ کسی بے گناہ کو توہین مذہب کے الزام میں پھنسادیا جائے، اس سے بھی کہیں سنگین بات یہ ہے کہ ہماری عدالتیں ایسے جھوٹے الزامات لگانے والوں کوکوئی سزا نہیں دیتیں بلکہ انہیں ایسے جرائم کرنے کے مزید مواقع فراہم کرتی ہیں۔
پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں عدالتی فیصلوں کے احترام کا دم بھرتی ہیں اور انہیں آزاد قرار دیتی ہیں مگر کسی مذہبی رہنما کا توہین مذہب کے الزام میں بری ہونے والوں کے فیصلوں پر کبھی کوئی مثبت تبصرہ نظر نہیں آتا۔ ہماری مذہبی جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کریں تاکہ انسداد توہین رسالت کے قوانین کے غلط استعمال کا راستہ روکا جاسکے کیونکہ یہی وہ رویہ ہے جو لوگوں کو ان قوانین پر تنقید کرنے کا موقع فراہم کرتاہے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہاں توہین مذہب کے واقعات نہیں ہوتے، توہین آمیز واقعات ہوتے ہیں، جنکی کسی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں بہت سارے واقعات ایسے ہیں جن میں محض ذاتی عناد کی وجہ سے توہین مذہب کا کارڈ استعمال کیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو ہم مدد فراہم کرتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام اتنا کمزور ہے کہ وہ ایسے افراد کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔
توہین مذہب کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہونا جیسے ہماری دینی ذمہ داری ہے، توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والوں کے خلاف بھی کھڑے ہونا ہماری ذمہ داری ہے ورنہ ایسے لوگوں کی وجہ سے انسداد توہین کے قوانین پر تنقید جاری رہے گی اور ان کی بنیاد پر قائم ہونے والے مقدمات ہمیشہ مشکوک رہیں گے۔