اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے پیغام پاکستان نامی دستاویز کی روشنی میں ایک ضابطہ اخلاق پیش کیا گیا ہے، جس کا مقصد اگرچہ اس میں درج نہیں تاہم ظاہر ہے کہ یہ ضابطہ اخلاق موجودہ حالات کے تناظر میں پیش کیا گیا ہےتاکہ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکے۔
پاکستان میں فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ جتنی پرانی ہے، یہ ضابطہ اخلاق بھی اتنے ہی پرانے چلے آرہے ہیں اور مسلسل مکھی پر مکھی ماری جارہی ہے۔ ان ضابطہ ہائے اخلاق پر ہمیشہ تمام مکاتب فکر کے لوگ جمع ہوتے ہیں، سبھی اس پر دستخط کرتے ہیں، سب امن کے سفیر بنتے ہیں اور فرقہ واریت کے خاتمے پر تقاریر کرتے ہیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اس ضابطہ اخلاق پر عمل نہیں کرتا بلکہ اپنے اپنے حلقوں میں جاکر یہ لوگ اپنے ہی دستخطوں سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کمیٹی کی سفارشات ہوں، ملی یکجہتی کونسل کا ضابطہ اخلاق ہو، ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی کمیٹی سفارشات ہوں، متحدہ علماء بورڈ پنجاب اور پرویز مشرف کی علماء کمیٹی کے فیصلے ہوں یا اب پیغام پاکستان۔ ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم دستاویز تیار ہوجائے مگر اس سب میں مواد ایک جیسا ہی ہے کہ ہم سب اکتیس علماء کے بائیس نکات پر متفق ہیں،کسی مسلم فرقہ کو کافر قرار دینا اور اسے واجب القتل قرار دینا غیر اسلامی ہے، عظمت رسول ﷺ عظمت اہل بیت، عظمت صحابہ کرام، عظمت خلفائے راشدین، عظمت ازواج مطہرات اور عظمت امام مہدی ایمان کا لازمی جزو ہے، ان کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے، انکی تنقیص حرام ، قابل مذمت اور قابل سزا جرم ہے۔باہمی تنازعات کو افہام وتفہیم سے حل کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔
ایسی بہت ساری دفعات ملی یکجہتی کونسل، متحدہ علماء بورڈ اور پیغام پاکستان جیسے دیگر کئی ضابطہ ہائے اخلاق کا حصہ ہیں اور ان پر مولانا فضل الرحمن، پروفیسر ساجد میر، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا سمیع الحق، علامہ ساجد علی نقوی اور علامہ علی شیر حیدری جیسے سرکردہ لوگوں کے دستخط ہیں مگر فرقہ واریت بھی اپنی جگہ موجود ہے اور فرقہ وارانہ تشدد بھی کم نہیں ہوا۔ کبھی فرقہ واریت کم ہوتی ہے یا کبھی پرتشدد واقعات سامنے نہیں آتے تو اسکی وجہ یہ نہیں کہ ان ضابطہ ہائے اخلاق پر عملدرآمد ہورہا ہے بلکہ اسکی وجہ حالات کا جبر ہے، سی ٹی ڈی کے جعلی پولیس مقابلے اسکی وجہ ہیں، نیشنل ایکشن پلان اس کا سبب ہے۔ جیسے ہی فرقہ واریت کی دوبارہ ضرورت محسوس ہوتی، وہی مسائل دوبارہ سر اٹھائے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔
حالیہ محرم میں اسلام آباد میں ہونے والے گستاخی کے واقعہ نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ فرقہ واریت کو ہمیشہ ضرورت کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔ آج ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان میں فرقہ واریت کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت اسی روز دم توڑ گئی تھی، جس دن ملک میں موجود تمام مسلم مکاتب فکر کے اکتیس جید علماء کرام نے بائیس نکات پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد جب بھی فرقہ واریت کا مسئلہ سامنے آیا، کسی نہ کسی ضرورت کے تحت سامنے آیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ حالیہ محرم میں اسلام آباد میں گستاخی کا واقعہ جان بوجھ کرکروایا گیا ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے ایک وفاقی وزیر جس کا شیعہ مذہب سے بھی تعلق نہیں، وزیر اعظم کے ایک مشیر اور اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر نے اس واقعہ کی باقاعدہ اجازت دی اور گستاخ کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا جس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ اب وہی وفاقی وزیر اسلامی نظریاتی کونسل میں بیٹھ کر اجلاس کی صدارت کرتا ہے اور شہری ذمہ داریوں پر قوم کو بھاشن دیتا ہے جو بذات خود اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوا اور ملک کو ایک سنگین فساد میں مبتلا کرنے کی سازش کا حصہ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک انکوائری کا آرڈر دیا، جس کے نتیجہ میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی چھٹی پر باہر چلے گئے اور وفاقی وزیر ملک کو آگ میں جھونکنے کے بعد قیام امن کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے اور فرقہ واریت کے پس پردہ عوامل کو سمجھنے کے لیے کافی ہے، مگر شرط وہی ہے کہ کوئی ان مسائل کو سمجھنے کا خواہش مند تو ہو۔ اس جرم میں صرف ارباب اختیار ہی شریک نہیں بلکہ وہ سب لوگ بھی شریک ہیں جو گستاخوں کے پشتیبان یا گستاخوں کے مخالف مگر اس مخالفت میں عقل وشعور سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اور مسلسل ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا کرکے بظاہر تو گستاخوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں مگر نقصان ملک کا کرتے ہیں۔ یاد رہے جب تک آپ اپنے ایک پاؤ گوشت کے لیے دوسرے کا پورا اونٹ ذبح کرتے رہیں گے، تب تک امن کا خواب خواب ہی رہے گا۔ آپ کو جتنا اپنا تحفظ عزیز ہے، دوسرے کا تحفظ بھی آپ کو اتنا ہی عزیز ہونا چاہیے چاہے وہ آپ کا فکری یا نظریاتی مخالف ہی کیوں نہ ہو۔
برصغیر میں لڑاؤ اور حکومت کرو کی بنیاد انگریز سرکار نے ڈالی مگر انگریز کے جانے کے باوجود ہماری سرکار آج تک اس اصول پر سختی سے عملدرآمد ہے۔ ہمیں بوقت ضرورت شیعہ وسنی، حنفی و سلفی، دیوبندی و بریلوی اختلافات میں الجھا دیا جاتا ہے اور اس کا فائدہ ہمیشہ اس فریق کو ہوتا ہے جو اس لڑائی کے پس منظر میں رہتا ہے، کبھی نظر نہیں آتا۔
ضروت ہے کہ پاکستان میں موجود انسداد فرقہ واریت کے قوانین کو پسند ناپسند سے بالاتر کیا جائے، جس کا جوقصور ہے، اسے اس کے مطابق سزا دی جائے، اس کے ساتھ یہ رعایت نہ برتی جائے کہ فلاں ملک کا سفیر اسکی سفارش کرتا ہے یا فلاں وزیر کے ساتھ اسکی دوستی ہے۔ قوانین کو ضرور سخت کیا جائے مگر اس کے ساتھ ساتھ نظام کی اصلاح کو یقینی بنایا جائے۔ ہمارا موجودہ نظام گناہ گار اور بے گناہ کافرق کیے بغیر مطلوبہ تعداد پوری کرنے پر زور دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسداد دہشت گردی کی جنگ میں کئی بے گناہ اس کا شکار ہوگئے ہیں۔ اسی طرح مذہب اور مسلک کے غلط استعمال کی روک تھام ضروری ہے اور اس کے لیے بڑی ذمہ داری اہل علم طبقات کی ہے، وہ ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کریں جو اپنے بعض مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مذہب و مسلک کا غلط استعمال کرتے ہوئے لوگوں پر توہین مذہب کا الزام لگاتے ہیں۔ گذشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں توہین مذہب کے ملزم کو تو بری کیا ہے مگر اس پر الزام لگانے والے کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ جھوٹا الزام لگانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے تاکہ اس جرم کی روک تھام ممکن ہوسکے۔