حالیہ محرم میں ہونے والی شیعہ سنی کشیدگی کا پہلا نتیجہ سامنے آگیا ہے۔ اس کشیدگی میں ابھر کرسامنے آنے والے دیوبندی جید عالم مولانا ڈاکٹر عادل خان اور ان کے ڈرائیور کو ابھی کچھ دیر پہلے قتل کردیا گیا ہے۔إنا لله وإنا إليه راجعون۔ ان لله ما أخذ وله ما اعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى
بہت کم لوگ ہیں جو اس بات سے واقف ہیں کہ ڈاکٹر عادل خان ہمیشہ سپاہ صحابہ جیسی شدت پسند تنظیموں کے ناقد رہے۔ خالص علمی شخصیت اور پڑھنے لکھنے والے انسان تھے۔ چند سال قبل وہ پاکستان کو چھوڑ کر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملائشیا کے شعبہ علوم اسلامیہ میں پروفیسر کی حیثیت سے گئے اور وہاں پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہوگئے۔2017 میں اپنے والد مولانا سلیم اللہ خان کی وفات کے موقع پر پاکستان آئے اور والد کی علمی یادگار جامعہ فاروقیہ کا اہتمام سنبھال کر اسکی تعمیر و ترقی میں مصروف ہوگئے۔
حالیہ محرم میں شیعہ و سنی کشیدگی کے واقعات سامنے آئے تو کراچی سے مفتی منیب الرحمن اور مولانا عادل خان نے آگے بڑھ کر تحفظ ناموس صحابہ کا علم سنبھالا اور اپنے مزاج کے برخلاف اس تحریک کی قیادت میں پیش پیش نظر آئے۔ حکومتی سطح پر ہونے والے اجلاسوں میں بھی تحفظ ناموس صحابہ کا مقدمہ مضبوط انداز میں پیش کرتے رہے اور مسلسل یہ مطالبہ کرتے رہے کہ پاکستان میں مقدس شخصیات کی توہین کے سلسلے کو روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔شنید ہے کہ اس بارے قانون سازی کا عمل شروع ہے اور اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں مفتی محمد تقی عثمانی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عادل خان بھی شریک تھے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عادل خان کے والد مولانا سلیم اللہ خان پاکستان میں پرتشدد اور اولین شیعہ مخالف تحریک "سواد اعظم” کے بانی تھے۔ مگر ڈاکٹر عادل خان خود سپاہ صحابہ کے شدید ناقد تھے اور بڑی کوشش کرکے انہوں نے اپنے والد کو سپاہ صحابہ کی قیادت سے دور کیا اور اپنے اداروں جامعہ فاروقیہ وغیرہ کو فرقہ وارانہ اثرات سے بچانے کی کوشش کرتے رہے مگر آج وہ اسی فرقہ واریت کا نشانہ بن گئے ہیں۔
اس کشیدگی کے آغاز میں ہی ہم نے عرض کیا تھا کہ کسی خاص مقصد کے لیے اس فتنہ کو ہوا دی گئی ہے اور شاید اس سے قتل و غارت کا آغاز ہوسکتا ہے۔ بلآخر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا اور اس قتل سے شروع ہونے والا سلسلہ پتہ نہیں کس کس کے لیے جان لیوا ثابت ہو۔اللہ پاک اس ملک پر رحم فرمائیں اور پاکستان کو امن و استحکام نصیب فرمائیں۔ آمین۔