پارلیمانی جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن ایک گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ حکومت نظام کی اسٹیئرنگ سیٹ پر ہوتی ہے، نظام چلانے کی ذمے داری حکومت کی ہوتی ہے، مگر اپوزیشن بھی بے کار نہیں ہوتی، جمہوری نظام میں اپوزیشن کا بھی ایک کردار ہے اور وہ بھی حکومت کی طرح ریاست کی اسٹیک ہولڈر ہے۔ حکومت کا کام جہاں نظام چلانا اور آئین و قانون کی حکمرانی و بالا دستی قائم کرنا اور ریاست کی عملداری یقینی بنانا ہے، وہاں اپوزیشن کی ذمے داری حکومت کی پالیسیوں اور اس کے کام، کارکردگی، گورننس اور طرز حکمرانی پر نظر رکھنا ہے۔ یہ اپوزیشن کا آئینی فرض ہے کہ وہ جہاں قانون کی حکمرانی میں کوئی جھول اور نظم و نسق میں خامی دیکھے تو اسے پارلیمان کے فورم پر سامنے لائے، حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی اور اصلاح کرے۔ اپوزیشن کے اس رد عمل پر مثبت رسپانس دینا حکومت کا فرض ہوتا ہے۔
جمہوری نظام اس تصور پر قائم ہے کہ کوئی بھی فرد، جماعت یا ادارہ اکیلے نظام حکومت نہیں چلا سکتا، جمہوری نظام امور مملکت میں پاور شیئرنگ اور اشتراک عمل کے نظریے پر قائم ہے۔ اس نظریے کے تحت حکومت اور اپوزیشن کو تمام اداروں کو ساتھ لے کر نظم حکومت چلانا ہوتا ہے۔ اکیلے اور کسی کو خاطر میں لائے بغیر اپنی مرضی سے حکومت چلانا آمرانہ طرز عمل ہے، جمہوری رویہ نہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور دین حق نے ہمیں انفرادی زندگی کی طرح اجتماعی زندگی کی ترتیب و تہذیب کے بھی اصول بتلائے ہیں۔ قرآن کریم جو اسلامی نظام حیات کا ماخذ قانون ہے، اللہ تعالیٰ اس میں ارشاد فرماتے ہیں: و امرھم شوریٰ بینھم۔ اس آیت میں یہ اصول دیا گیا ہے کہ اجتماعی نظام اور نظم مملکت کیلئے باہمی مشاورت اور شراکت اقتدار یعنی پاور شیئرنگ ضروری ہے۔ قرآن کریم آمرانہ رویے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ یہ انسانی فطرت اور طبعیت کے بھی منافی ہے کہ تمام انسانوں پر کوئی ایک انسان یا جماعت اپنی مرضی چلائے۔ اس طرز حکومت سے فساد اور بگاڑ کا پیدا ہونا لازمی امر ہے، اس لیے اس سے گریز کرتے ہوئے ہمیں جمہوری رویے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی روش اپنانی چاہئے۔ سب کے باہمی اشتراک اور افہام و تفہیم سے ملک چلانے میں ایک تو غلطیوں اور کوتاہیوں کا امکان کم سے کم ہوتا ہے، دوسرا اس صورت میں ذمے داری کا بوجھ کسی ایک فرد اور جماعت پر بھی نہیں آتا۔ اس لیے انسانی تجربات میں شورائی اور جمہوری طرز حکومت کو سب سے بہتر مانا گیا ہے۔
ہمارے ہاں بد قسمتی سے یہ رویہ ناپید ہے۔ یہاں ہر کوئی خواہ وہ فرد یا جماعت زیادہ سے زیادہ اپنی ذات میں اقتدار و اختیار کا ارتکاز چاہتا ہے اور دوسرے کو کھیل سے باہر کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ حکمران جماعت خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی دور میں ہو، چاہتی ہے کہ وہی ملک کے سیاہ و سفید کی بلا شرکت غیر مالک و مختار بنے اور اس سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہو، وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرتی رہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کا رویہ بھی کوئی قابل تعریف نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کی یہی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ اسی کی مانی جائے، حکومت نہ چلنے پائے اور ناکامی سے دو چار ہو۔ اس صورتحال کے نتیجے میں ملک بد ترین سیاسی عدم استحکام سے دو چار ہوجاتا ہے، جو معاشی ابتری پر جا کر منتج ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو دشمن ٹھہرا لیتی ہیں اور باہم دشمنوں کا سلوک کرتی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک ہی ملک اور ایک ہی قوم سے ہیں اور ایک ہی قوم سے ووٹ حاصل کرتی ہیں تو پھر معاندانہ طرز عمل کا کیا جواز ہے؟ حکومت اور اپوزیشن میں اختلاف ہوتا ہے، دشمنی نہیں ہوتی اور نہ ہونی چاہئے۔ اختلاف بھی اس امر پر ہونا چاہئے کہ قوم و وطن کو فائدہ کس پالیسی میں ہے، کس میں نہیں۔ یعنی دونوں کی کوشش زیادہ سے زیادہ بہتری اور اصلاح احوال میں ہی ہو۔ حکومت اپوزیشن کو دبانے اور اپوزیشن حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گی تو یہ دشمنی ہوگی، اختلاف نہیں۔ اور اس طرز عمل سے نقصان سراسر ملک و قوم کا ہے۔ بحیثیت قوم ہم سب کی ذمے داری ہے کہ اصلاح احوال کی جس سے جو بھی بن پڑے کر گزرے اور ایسا بے لچک طرز عمل اختیار نہ کیا جائے جس سے فائدے کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہو۔ وطن عزیز شدید مشکلات کا شکار ہے، معیشت کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں، مہنگائی عروج پر ہے، قرضے بڑھ رہے ہیں، مسائل کا چاروں طرف انبار ہے، اس منظر نامے کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میانہ روی اختیار کریں، حکومت سیاسی محاذ آرائی اور سیاسی مقدمات میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنی کارکردگی بہتر کرنے پر توجہ دے، غریب عوام انتہائی ابترحالات میں ہیں، سیاسی انتشار اور سیاسی لڑائیوں سے غریب عوام کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر کام کرے اور اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر مثبت اور تعمیری تنقید کرے، اس سے ان شاءاللہ وطن عزیز میں استحکام آئے گا اور دشمن کی سازشیں ناکام ہوں گی۔ یہ ملک جتنا حکومت کا ہے، اتنا ہی اپوزیشن کا بھی ہے۔ یہ ہم سب کا ملک ہے، ہم سب مل کر، مثبت او ر تعمیری سوچ اپنا کر ہی اپنے وطن، اپنے گلشن اور اپنے اس پیارے گھر کی رونق بڑھا سکتے ہیں۔ وطن مضبوط، مستحکم اور خوشحال ہوگا، تو حکومت کا بھی فائدہ ہوگا، اپوزیشن کا بھی اور پوری قوم کا بھی۔