انڈیا نے سعودی عرب میں حال میں جاری کیے جانے والے 20 ریال کے نوٹ کی پشت پر چھاپےگئے دنیا کے نقشے میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو ایک علیحدہ سرحدی اکائی کے طور پر دکھائے جانے پر سعودی عرب کی حکومت سے شکایت کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک خبر کے مطابق نئی دہلی میں انڈیا کے دفتر خارجہ نے سعودی عرب کی طرف سے دنیا کے بیس معاشی طور پر مستحکم ممالک کی تنظیم ‘جی ٹوئنٹی’ کی اپنی سربراہی کی خوشی میں 20 ریال کے نئے کرنسی نوٹ پر دکھائے جانے والے نقشے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کشمیر کا خطہ انڈیا، پاکستان اور چین کے درمیان متازع سرحدات پر مشتمل ہے اور سعودی عرب کے نئے کرنسی نوٹ پر اس کو ایک اعلیحدہ ملک کے طور پر دکھایا گیا ہے اور اس میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا حصہ بھی شامل ہے۔
انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ سعودی حکام کو اس سلسلے میں درستگی کے اقدامات کرنے چاہیں لیکن سعودی حکام کی طرف سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔
جی ٹونٹی ملکوں کے گروپ میں انڈیا شامل ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی اس سال اس کے ورچوئل اجلاس سے نومبر میں خطاب کریں گے۔
کشمیر کے متنازع خطے پر انڈیا کی طرف سے اپنے دعوے میں شدت آتی جا رہی ہے اور گزشتہ برس اگست کی پانچ تاریخ کو اس متنازع ریاست کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کر کے اس کو دو انتظامی حصوں میں تقسیم کر کے انڈیا کی ‘یونین ٹریٹری’ میں ضم کر لیا گیا تھا۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری اعلیحدگی کی تحریک میں دسیوں ہزار لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور گزشتہ سال پانچ اگست کے اقدامات کے بعد سے ہندو ا نتہاہ پسند جماعت بی جے پی کی حکومت نے عوامی رد عمل کو کچلنے کے لیے سری نگر وادی اور دیگر علاقوں میں طویل عرصے تک کرفیو اور مواصلات کو بند کیے رکھا۔
انڈیا کی حکومت نے گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئٹر کی جیو ٹیگنگ ڈیٹا میں لداخ کو چین کا حصہ دکھائے جانے پر احتجاج کیا تھا۔
تین سال قبل انڈیا میں ایک نیا قانون نافذ کیا گیا تھا جس کے تحت ملک کے کسی حصے کو غلطی سے الگ دکھانے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا تھا جس کے تحت کسی مجرم کو تین سال کی قید سزا سنائی جا سکتی ہے۔
نئی دہلی نے سنہ 2015 میں ذرائع ابلاغ کے عالمی ادارے الجزیرہ کو ایک ہفتے کے لیے اس وجہ سے بند کر دیا تھا کہ الجزیرہ پر دکھائے گئے ایک نقشے میں کشمیر کو انڈیا سے الگ دکھایا گیا تھا۔