فرانس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گستاخی کے بعد بجا طور پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج اور غم و غصہ کی کیفیت میں ہیں۔ فرانسیسی صدر ماکرون کے ایک متنازعہ بیان اور ڈھٹائی نے اس معاملے کو مزید گھمبیر کر دیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کو آزادی اظہار کے نام پر فروغ دینے کی منظم و مذموم سازش کی جا رہی ہے اور فرانس کی حکومت اس دل آزار اور گھٹیا عمل کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ فرانس میں کی جانی والی اس شنیع حرکت کے بعد پوری دنیا کے مسلمان اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ایک مو ثر مہم چل رہی ہے۔ پاکستان کے عوام بھی اس بارے میں کسی سے پیچھے نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات مبارکہ سے والہانہ محبت کے اظہار کے لیے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔
عوامی سطح پر فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا اگر کوئی بہت بڑا معاشی اثر نہ بھی ہو تو اس سے ایک پیغام ضرور جاتا ہے کہ مسلمانان پاکستان کیا سوچ رہے ہیں اور گستاخی کے اس شنیع عمل سے کس قدر اذیت سے دوچار ہیں۔ اس وقت فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم میں سوشل میڈیا زور و شور سے شریک ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے مصنوعات کی ایک لسٹ شیئر کی جا رہی ہے جن کا فرانس سے تعلق ہے۔ اس لسٹ میں LU بسکٹ کا نام بھی شامل ہے، جس نے بائیکاٹ مہم کے آغاز میں ہی اردو اور انگریزی میں وضاحت جاری کی کہ LU برانڈ کا فرانس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک پاکستانی کمپنی کا برانڈ ہے، جس میں کچھ اثاثے ایک امریکی کمپنی کے بھی ہیں۔ کمپنی نے اپنی وضاحت کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سے رابطہ کیا، کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ان کی وضاحت کا خیرمقدم کیا۔ اس دوران بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر عزیز الرحمن کی الگ اور جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاون کے مفتی محمد یوسف اسکندر کی تحقیق سامنے آئی جس میں یہ بتایا گیا کہ LU کی مصنوعات کا فرانس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چند دن بعد انہی تحقیقات کو بنیاد بناتے ہوئے جامعة الرشید نے لیڈنگ کردار ادا کرتے ہوئے اپنے جے ٹی آر میڈیا ہاوس سے ایک لائیو پروگرام نشر کیا جس میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی شریعہ اکیڈمی کے ڈی جی ڈاکٹر محمد مشتاق، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر عزیز الرحمن، کانٹی نینٹل بسکٹس لمیٹڈ کا موقف دینے کے لیے نوابزادہ برکت خان وغیرہ شریک ہوئے۔
مذکورہ تحقیقات اور جامعة الرشید کے اس لائیو پروگرام کے بعد درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں۔
پاکستان میں LU بسکٹس کو ایک پاکستانی کمپنی کانٹینٹل بسکٹس لمیٹڈ تیار کرتی ہے۔ اس کمپنی کا صدر دفتر کراچی میں ہے اور مصنوعات کی تیاری کی فیکٹری سکھر (سندھ) میں قائم ہے۔ کانٹینٹل بسکٹس لمیٹڈ کی مصنوعات اپنی کوالٹی کی وجہ سے مارکیٹ میں نمایاں مقام رکھتی ہیں اور کمپنی کی تیار کردہ مصنوعات کو ملک بھر میں عوامی پذیرائی حاصل ہے۔ یہ کمپنی LU بسکٹس کو ایک امریکی کمپنی مونڈلیز کے اشتراک کے ساتھ بناتی ہے۔ مونڈلیز بین الاقوامی سطح پر ایک معروف کمپنی ہے جو خوراک و اشیائے خور و نوش کی فراہمی میں ایک بڑا نام ہے۔ مونڈلیز نے LU کے تجارتی نام کو 2007ءسے خرید رکھا ہے اور دنیا بھر میں LU نامی یہ برانڈ نیم اب امریکی کمپنی مونڈلیز کی ملکیت ہے۔ اس سے قبل LU کی ملکیت ایک فرانسیسی کمپنی کے پاس تھی جو کاروباری ادغام کے نتیجے میں 2007ءمیں مکمل طور پر امریکی کمپنی کو منتقل ہو چکی ہے۔ امریکی کمپنی مونڈلیز اور پاکستانی کمپنی کانٹینٹل بسکٹس لمیٹڈ کے اشتراک سے LU کی مصنوعات کو اب پاکستان میں تیار کیا جاتا ہے۔ جیسے اس کاروبار کی ملکیت کا فرانس سے کوئی تعلق نہیں ہے، ویسے ہی یہ کمپنی امریکی کمپنی مونڈلیز کے ساتھ شراکت داری سے LU کی مصنوعات تیار کرتی ہے اور اس کاروبار میں اکثریتی شیئرز پاکستانی کمپنی یعنی کانٹینٹل بسکٹس لمیٹڈ کے ہیں۔
کمپنی کی وضاحت کے مطابق LUبسکٹس کی تیاری کے لیے زیادہ تر خام مال پاکستان ہی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ شکر، گندم اور اس نوعیت کا سارا خام مال پاکستان ہی سے سپلائی ہوتا ہے۔ باہر سے جو خام مال منگوایا جاتا ہے اس میں سے بھی کوئی بھی شے فرانس سے درآمد نہیں کی جاتی۔ درآمد کیے جانے والے خام مال میں پام آئل نمایاں ہے جو ایک مسلم ملک ملیشیا سے درآمد کیا جاتا ہے۔
کمپنی کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کانٹینٹل بسکٹس لمیٹڈ کی طرف سے LU کی مصنوعات تیار کرنے کے ضمن میں کسی بھی فرانسیسی کمپنی کو رائلٹی نہیں ادا کی جاتی۔ جیساکہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اس تجارتی نام کی ملکیت ایک امریکی کمپنی کے پاس ہے اور فرانس سے اب اس کی ملکیت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب LU کے ٹریڈ مارکس کی مکمل ملکیت امریکی مونڈلیز کمپنی کے پاس ہے۔
پاکستان میں LU کی تمام مصنوعات پر میڈ اِن پاکستان درج ہے مگر بعض لوگوں نے سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر شیئر کی ہیں جن میں LU کی مصنوعات کو میڈ اِن فرانس دکھاکر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کانٹینٹل بسکٹس لمیٹڈ پاکستان میں مونڈلیز کے ساتھ مل کر LU کی مصنوعات تیار کرتی ہے، اسی طرح مونڈلیز دنیا کے کئی ممالک بشمول فرانس میں یہ مصنوعات بناتی ہے۔ پاکستان میں بننے والی مصنوعات میڈ اِن پاکستان ہیں اور کسی بھی دوسرے ملک میں تیار ہونے والی LU کی مصنوعات کو وہاں کے ”میڈ“ کے طور پر لکھا جائے گا۔ اس کا تعلق کاروبار اور تجارتی نام کی ملکیت سے نہیں ہے۔ LU کی تیاری کسی بھی ملک میں ہوسکتی ہے مگر اس کی ملکیت امریکی کمپنی مونڈلیز کے پاس ہے۔
مندجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ LU کا تعلق فرانس سے نہیں ہے اور بائیکاٹ کی مہم میں اس کا نام شامل کرنا درست بات نہیں ہے۔ کانٹینٹل بسکٹس لمیٹڈ کے کاروبار سے ہزاروں پاکستانی شہریوں اور ان کے خاندانوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی بے روزگاری عروج پر ہے۔ معاشی بدحالی کی وجہ سے لوگ دربدری کا شکار ہیں۔ ایسے میں روزگار کی فراہمی اور مقامی کاروبار کے تحفظ کے لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ جو ادارے فرانس سے وابستہ نہیں ہیں، انہیں محض پروپیگنڈے کی بنیادبنا کر بائیکاٹ مہم کا نشانہ بنانے سے گریز کریں، ورنہ یہ عمل پاکستانی کمپنیوں اور ان میں کام کرنے والوں کو بے روزگار کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس معاملے میں افسوسناک امر یہ ہے کہ کچھ حریف ادارے بھی اپنا کاروبار چمکانے کے لیے لوگوں کو پروپیگنڈے کے جال میں پھنسا رہے ہیں، جو بہر حال ایک معیوب عمل ہے۔ ملک بھر کے جید علماء کرام، سماجی و مذہبی شخصیات نے بھی مذکورہ تحقیقات کو سند جواز فراہم کردیا ہے اور LU بسکٹس کا بائیکاٹ کرنے سے منع کررہے ہیں۔