ترکی اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی تجارتی کشیدگی کے تناظر میں مبینہ طور پر سعودی عرب ترک اشیا کا بائیکاٹ کر رہا ہے۔
گذشتہ چند سالوں میں ترکی کی جانب سے جارحانہ بیان بازی اور مشرقی بحیرہِ روم، لیبیا، اور شام میں بھی جارحانہ اقدامات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
علاقائی قیادت کی اس لڑائی میں غیر رسمی پابندیاں، غیر سرکاری رکاوٹیں، سرحد پر تاخیر اور ترک اشیا کے بائیکاٹ کے مطالبے شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں پھیل چکے ہیں۔
ترکی اور خلیجی ممالک کے درمیان مصر میں 2013 میں فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹائے جانے، 2017 میں قطر کے خلاف بلاکیڈ، صحافی جمال خاشقجی کی استنبول میں سعودی سفارتخانے میں ہلاکت، اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے تناؤ ہے۔
اطلاعات کے مطابق گذشتہ چند ماہ میں ترکی کو سعودی عرب کی جانب سے متعدد اہم معاشی چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔
تین اکتوبر کو ٹوئٹر پر کونسل آف سعودی چیمبرز کے سربراہ اجلان بن عبد العزیز الاجلان نے ترک اشیا کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد سے متعدد کمپنیوں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔
اہم سپر مارکیٹ العثیم نے تمام ترک اشیا کا بائیکاٹ کر لیا ہے جبکہ معروف سعودی فاسٹ فوڈ چین ہرفی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’ترک برگر‘ کی جگہ ’یونانی برگر‘ بیچیں گے۔
واضح رہے کہ ترکی اور یونان کے مابین تعلقات میں سرد مہری ہے۔
ترک کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انھیں سعودی عرب میں اشیا لانے اور وہاں پر تعمیراتی ٹھیکے حاصل کرنے میں مشکلات ہو رہی ہیں۔
ادھر معیشت پر توجہ دینے والے اخبار دنیا نے یکم اکتوبر کو بتایا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی کنٹینر شپنگ کمپنی مائرسک نے اپنے صارفین کو متنبہ کیا تھا کہ ترکی سے سعودی عرب سامان لے جانے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ‘ترکی سے آنے والے سامان پر درآمدی پابندیاں، یا سست روی کے ساتھ کسٹمز کا عمل لاگو کیا جاتا ہے۔ کارگو کو ٹرمینل پر کافی تاخیر کا سامنا ہوتا ہے، اور یا تو وہ دیر آئے گا یا پھر کسٹمز میں ہی روک لیا جائے گا۔‘
ایک کاروباری شخصیت نے اخبار دنیا کو بتایا کہ انھوں نے بذاتِ خود سعودی حکام کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ ایسی ایشا نہیں چاہتے جن پر ‘میڈ ان ترکی‘ لکھا ہو۔
22 اکتوبر کو فاکس ٹی وی نیوز اینکر اسماعیل کوکچکایا نے بتایا کہ ‘اگر (ترک اشیا) ملک میں داخل ہو بھی جائیں تو دکانوں پر ترک اشیا کے ساتھ لیبل لگا ہوا ہوتا ہے کہ ترک اشیا کو ہاتھ مت لگائیں۔‘
ادھر ترکی میں برآمد کے کاروبار سے منسلک لوگوں کے حوالے سے مقامی میڈیا میں بھی خبریں آ چکی ہیں کہ انھیں سعودی عرب میں پابندیوں کا سامنا ہے۔
جنوبی صوبے غزیاںتب اور ہاتے میں روزنامہ اخباروں نے خاص طور پر اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔
ستمبر 29 کو پوسالا اخبار کا کہنا تھا کہ ‘سعودی عرب غزیانتب کے لیے ایک اہم مارکیٹ ہے اور تجارتی حلقہ بندی صوبے کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہے۔‘
اخبار اوزیرت کی شہ سرخی اسی روز تھی کہ ’پابندیاں ہاتے کو نقصان پہنچائے گیں۔‘ اخبار کا دعویٰ ہے کہ اس صوبے کی سعودی عرب جانے والی برآمدات سات کروڑ ڈالر کے قریب ہیں۔
خطے میں مشکلات
ترک کاروباروں کا کہنا ہے کہ انھیں شمالی افریقی اور خلیجی ممالک میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
تعمیراتی شعبے سے منسلک ایک شخص کا کہنا تھا کہ انھیں متحدہ عرب امارات میں بھی مشکلات ہو رہی تھیں تاہم وہ سعودی عرب کو برآمدات بھیجنے کے مقابلے میں کم ہیں۔
13 اکتوبر کو حکومت حامی ترک اخبار روزنامہ صباح نے رپورٹ کیا کہ ترک برآمدی کمپنیوں کو الجیریا میں غیر عمومی دستاویزات کے مطالبوں اور تاخیر کا مسلسل سامنا ہے۔
ادھر قوم پسندی میں یقین رکھنے والے جریدے اولوسال نے 14 اکتوبر کو بتایا کہ گذشتہ ماہ مراکش، الجیریا، اور تیونس نے کسٹمز کے وقت میں پانچ گنا اضافہ کر دیا ہے۔
مراکش ورلڈ نیوز نامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مراکش اور ترکی کے درمیان اگست میں طے پانے والے ایک فری ٹریڈ معاہدے میں اکتوبر میں ترمیم کی گئی ہے جس میں کچھ صنعتی اشیا کی برآمد پر 90 فیصد تک ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔
اکادیمیا سے منسلک اسلام اوکان کا کہنا ہے کہ ‘متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب امریکہ کے ساتھ اپنے روابط، مالی وسائل اور عرب لیگ پر اجاراداری کو استعمال کررہے ہیں اور وہ ترکی کے لیبیا، شام، اور مشرقی بحیرہِ روم میں اقدامات سے پریشان ہیں۔‘
ترک صحافی امین کاپا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کو ہمارے پیچھے لگایا ہوا ہے اور تیونس اور الجیریا پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ترکی پر معاشی، سیاسی اور نفسیاتی جنگ کا اعلان کیا ہوا ہے۔
ترکی اور متحدہ عرب امارات میں تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ ہیں۔ متحدہ عرب امارات مصر میں سابق آرمی چیف عبد الفتح السیسی کا حامی ہے جبکہ انھوں نے 2013 میں اخوان المسلمین کی حکومت کو برطرف کیا تھا۔
نتائج کیا ہوں گے؟
اکتوبر میں ترک لاجسٹکس اسوسی ایشن نے خبردار کیا تھا کہ سعودی عرب کو جانے والی تین ارب ڈالر کی برآمدات خطرے میں ہیں۔
فارن اکانومک ریلیشنز بورڈ کے ڈپٹی سیکرٹری میرح کپیز نے اکتوبر میں خبردار کیا تھا کہ ‘ترکی کو ان پابندیوں کی قیمت ادا کرنی پڑے گی اور نئے دور میں ایک مستحکم سپلائی چین کے لیے یورپی اور امریکی کاوشوں کو نقصان ہوگا۔
صحافی کونی اوزدمیر کا کہنا ہے کہ ترکی کو ان پابندیوں کے خلاف کوششیں کرنی چاہییں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر میں وزیر خارجہ ہوتا تو میں اس وقت پریشان ہوتا۔‘
ترک صدر طیب اردوغان نے اب تک اس معاملے پر آواز نہیں اٹھائی ہے۔ دیگر ترک حکام نے ان مشکلات کی سنگینی کو قدرے کم قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کیونکہ ترکی ایک عالمی اور علاقائی طاقت بن رہا ہے اس لیے لوگ ان کے بارے میں ایسی باتیں کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ترکی کی اخوان المسلمین کی حمایت، جو کہ خلیج میں شاہی خاندانوں پر سوال اٹھاتے ہیں، بھی ایک تناؤ کی وجہ ہے۔
2017 میں قطر کے بلاکیڈ میں ترکی نے قطر کی مدد کی تھی اور کارگو اشیا بھیجی تھیں۔ قطر ترکی میں اہم سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔
علاقائی قیادت
ترک کمپنیوں نے سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے تاکہ ان مسائل کو حل کیا جا سکے۔
ایک ترک کاروباری گروپ کا کہنا ہے کہ ‘ہمارا ماننا ہے کہ تمام مسائل اور مشکلات کو باہمی تعاون اور بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔‘
تاہم حکومت حامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علاقائی قیادی کی جنگ اور مسلم امہ کی قیادت حاصل کرنے کے لیے یہ قربانی دینا درست ہے۔
ترکی کے ینی سفاک نامی اخبار کے ایڈیٹر ان چیف ابراہیم کاراگل کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے ایک ترک مخالف اتحاد بنا رکھا ہے۔
یہ اتحاد ترکی کو افریقہ سے لے کر جنوبی ایشیا تک میں کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس اتحاد نے ترک کے خلاف ایک جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔
اس قدر شدید بیانیے کے بیچ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وہ معاشی مفاد ہوں گے یا پھر عالمی سیاسیات جو سعودی ترک تعلقات کا رخ موڑیں گے؟
بشکریہ: بیرل اکمان,بی بی سی مانیٹرنگ