دس سال میں ویکسین بنانے کا کام صرف تقریباً 10 ماہ میں کر دیا گیا۔ اور اس کے باوجود اس کے ڈیزائن، ٹیسٹنگ اور مینوفیکچرنگ میں کوئی کمی نہیں لائی گئی۔
یہ دو بیانات ایک دوسرے سے متصادم لگتے ہیں اور اسی وجہ سے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ ہمیں کس طرح پتہ کہ آکسفورڈ ویکسین محفوظ ہے جب یہ اتنی تیزی سے بنائی گئی ہے۔ آکسفورڈ ویکسین نے اپنے نتائج شائع کیے ہیں اور کہا ہے کہ اس کی وجہ سے 70 فیصد لوگوں میں کووڈ۔19 کی علامات نہیں ظاہر ہوئی ہیں۔
سو حقیقی کہانی کیا ہے کہ آکسفورڈ ویکسین کس طرح بنائی گئی؟
یہ ایسی کہانی ہے جس کا انحصار اچھی قسمت اور سائنسی ذہانت پر ہے۔ ایبولا جیسی خطرناک وبا سے بھی اس کا تعلق ہے اور چمپینزی کی بہتی ہوئی ناک سے بھی، اور اس پر تحقیق کرنے والے جن کے پاس کبھی کچھ نہیں تھا اب چارٹرڈ طیاروں میں بھی سفر کر رہے ہیں۔
کام کئی سال پہلے شروع ہوا تھا
سب سے بڑی غلط فہمی یہ کہنا ہے کہ اس پر کام اس وقت شروع ہوا جب عالمی وبا کا آغاز ہوا تھا۔
سنہ 2014-2016 میں ایبولا وبا کا پھیلاؤ ایک تباہی تھی۔ اس کا ردِ عمل بہت سست تھا اور اس سے 11 ہزار افراد کی جان چلی گئی تھی۔
آکسفورڈ ویکسین کی معمار پروفیسر سارہ گلبرٹ نے مجھے بتایا کہ ’دنیا کو بہتر کرنا چاہیئے تھا۔‘
اس دوران یہ منصوبہ بنا کہ اگلی بڑی وبا کو کس طرح سنبھالنا ہے۔ انسانوں کو درپیش خطرات کے آخر میں ایک بیماری تھی جسے ’ڈیزیز ایکس‘ کا نام دیا گیا۔ یہ عجیب سا نام کسی نامعلوم انفیکشن کا تھا جو حیرت انگیز طور پر دنیا میں پھیل سکتی تھی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں جینیفر انسٹیٹیوٹ نے، جس کا نام اس سائنسدان کے نام پر تھا جس نے 1776 میں پہلی ویکسینیشن کی تھی، اور جو اب دنیا کے سرکردہ ماہرین کی آماجگاہ ہے،ایک حکمتِ عملی بنائی کہ نا نظر آنے والے دشمن کو کس طرح شکست دینی ہے۔
پروفیسر گلبرٹ کہتی ہیں کہ ’ہم منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ کس طرح تھوڑے سے تھوڑے ممکنہ وقت میں ہم کسی کو ویکسین دے سکتے ہیں۔‘
’ہم نے منصوبہ ابھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا تھا لیکن ہم نے کافی اچھا کیا تھا۔‘
ٹیکنالوجی کا انتہائی اہم حصہ
اس منصوبے کا مرکزی حصہ ایک انقلابی سٹائل کی ویکسین تھی جس کا نام ’پلگ اینڈ پلے‘ رکھا گیا تھا۔ اس میں نامعلوم دشمن سے نمٹنے کی دو سب سے ضروری خوبیاں ہیں: یہ بہت تیز اور لچکدار ہے۔
روایتی ویکسین بشمول بچوں کے تمام امیونائزیشن پروگرام میں اصل انفیکشن کی مری ہوئی یا کمزور حالت کو استعمال کیا جاتا ہے، یا اس کے کچھ حصے جسم میں انجیکٹ کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان کا بنانا سست رو ہوتا ہے۔
جبکہ آکسفورڈ کے تحقیق کاروں نے ChAdOx1 بنائی جو چمپینزی ایڈینو وائرس آکسفورڈ ون کا مخفف ہے۔
سائنسدانوں نے چیمپینزی کو لاحق عام زکام والے وائرس اور اسے ایسے شکل دی کہ وہ کسی بھی ویکسین کی تیاری میں مدد دے سکے۔
کووڈ سے پہلے ہی 330 افراد کو زکام سے لے کر زکا وائرس اور پراسٹریٹ کینسر سے ٹراپیکل بیماری چکنگنیا تک کے لیے ChAdOx1 پر مشتمل ویکسینز دی جا چکی تھیں۔
چیمپینزیوں سے لیا ہوا وائرس عموماً تبدیل شدہ ہوتا ہے اس لیے وہ لوگوں میں انفیکشن پیدا نہیں کر سکتا۔ اس میں پھر ترمیم کی جا سکتی ہے تاکہ جس کا بھی آپ چاہیں جینیاتی بلیو پرنٹ آپ اس میں ڈال سکیں اور امیون سسٹم کو ٹارگٹ کر سکیں۔ اس ٹارگٹ کو اینٹی جن کہتے ہیں۔
ChAdOx1 بالکل ایک طرح کا ایک نہایت اعلیٰ مائیکروسکوپک ڈاکیہ ہے۔ سائنسدانوں کو صرف پیکیج کو بدلنا ہے۔
پروفیسر گلبرٹ کہتی ہیں کہ ’ہم اس میں اسے ڈالتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔‘
جنوری 1
جب زیادہ تر دنیا نئے سال کی رات کو آرام سے جا کر لیٹ گئی تھی، پروفیسر گلبرٹ کو چین کے شہر ووہان میں کسی وائرل نمونیا کی تشویش ناک خبروں کا پتہ چلا تھا۔ دو ہفتوں کے اندر سائنسدانوں نے اس کے ذمہ دار وائرس کا پتہ چلا لیا اور یہ خدشہ ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ یہ لوگوں میں پھیلنے کے قابل ہے۔
پروفیسر گلبرٹ کہتی ہیں کہ ’ہم ڈیزیز ایکس کے لیے منصوبہ بندی کر رہے تھے، ہم ڈیزیز ایکس کے انتظار میں تھے، اور مجھے لگا کہ شاید یہ ہو سکتی ہے۔‘
اس وقت تک ٹیم کو علم نہیں تھا کہ ان کا کام کتنا اہم ہو سکتا ہے۔ اس کا آغاز ایک ٹیسٹ کے طور پر ہوا تھا کہ وہ کتنا تیز جا سکتے ہیں اور ChAdOx1 ٹیکنالوجی کا کس طرح مظاہرہ کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر گلبرٹ کہتی ہیں: ’میں نے سوچا کہ شاید یہ کوئی ایک پراجیکٹ ہی ہو، ہم ویکسین بنائیں گے اور وائرس غائب ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘
جب قسمت نے ساتھ دیا
شاید یہ کہنا عجیب لگے، تقریباً گمراہ کن، لیکن یہ خوش قسمتی تھی کہ عالمی وبا کی وجہ کورونا وائرس تھا۔
پہلے بھی گزشتہ 20 برسوں میں دو مرتبہ وائرسز جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ سارس کورونا وائرس 2002 میں اور مرس کورونا وائرس 2012 میں۔
’اس کا مطلب تھا کہ سائندانوں کو وائرس کی بائیولوجی کے متعلق پتہ تھا، اس کا رویہ اور اس کی ’سپائیک پروٹین‘ کیسی ہے۔
آکسفورڈ ٹیم کے پروفیسر اینڈریو پولارڈ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس ایک بڑی برتری تھی۔‘
سپائیک پروٹین وہ کنجی ہے جسے وائرس ہمارے جسم کے خلیوں کو کھولنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی ویکسین امیون سسٹم کو ایسے تیار کر سکے کہ وہ سپائیک پر حملہ کرے، تو ٹیم کو لگا کہ کامیابی کے امکانات ہیں۔
اور انھوں نے مرس کے لیے پہلے ChAdOx1 ویکسین تیار کی تھی، جو امیون سسٹم کو سپائیک کا پتہ لگانے کے لیے تیار کر سکتی تھی۔ آکسفورڈ ٹیم بالکل نقطۂ آغاز سے یہ سب کچھ شروع نہیں کر رہی تھی۔
پروفیسر پولارڈ کہتے ہیں کہ ’اگر یہ کوئی بالکل نامعلوم وائرس ہوتا تو ہم بہت زیادہ مشکل میں ہوتے۔‘
یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ کورونا وائرس کی انفیکشن بہت کم عرصے کے لیے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جسم وائرس کو شکست دینے کے قابل ہے، اور وائرس کو بس اس قدرتی عمل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
اگر یہ کوئی طویل مدتی اور دائمی انفیکشن ہوتی جسے جسم شکست دے سکتا، جیسا کہ ایچ آئی وی، تو یہ امکان نہیں تھا کہ ویکسین کام کرے۔
11 جنوری کو چینی سائنسدانوں نے کورونا وائرس کا مکمل جینیاتی کوڈ شائع کیا اور دنیا کو اس کے متعلق بتایا۔
اب ٹیم کے پاس کووڈ۔19 کی ویکسین بنانے کے لیے ضرورت کی سب چیزیں تھیں۔
انھیں صرف اتنا کرنا تھا کہ ChAdOx1 میں سپائیک پروٹین کے لیے جینیاتی ہدایات ڈال دیں اور بس پھر کام تقریباً مکمل۔
پیسہ، پیسہ اور پیسہ
ویکسین بہت مہنگی ہے۔
پروفیسر پولارڈ کہتے ہیں کہ ’پہلا مرحلہ بہت تکلیف دہ تھا۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب ہمارے پاس بینک میں پیسہ ہی نہیں تھا۔‘
ان کے پاس یونیورسٹی کی کچھ فنڈنگ تھی، لیکن ان کے پاس دنیا کے دوسرے گروہوں کے مقابلے میں ایک اہم برتری بھی تھی۔
آکسفورڈ میں چرچل ہسپتال کے مقام پر گروپ کا اپنا ویکسین بنانے والا پلانٹ بھی تھا۔
پروفیسر پولارڈ کہتے ہیں کہ ’ہم باقی تمام چیزیں بند کر کے یہ ویکسین بنا سکتے تھے۔‘
کام جاری رکھنے کے لیے کافی تھا، لیکن پھر بھی یہ اتنا نہیں تھا کہ ہزاروں خوراکیں تیار کی جائیں جو بڑے ٹرائلز کے لیے درکار ہوتی ہیں۔
پروفیسر گلبرٹ کے مطابق ’اپریل تک پیسہ حاصل کرنا میری مرکزی سرگرمی تھی، لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتی رہتی کہ وہ اسے اب فنڈ کریں۔‘
لیکن عالمی وبا کے دنیا بھر پر کنٹرول اور ملک لاک ڈاؤن میں چلے جانے کے بعد، پیسہ آنا شروع ہو گیا۔ اٹلی کے ایک پلانٹ میں ویکسین کی تیاری شروع کر دی گئی اور پیسے نے وہ مسائل حل کرنے میں مدد کی جن کی وجہ سے ٹرائل رکے ہوئے تھے، جن میں یورپ کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے نقل و حرکت کا مسئلہ بھی شامل تھا۔
پروفیسر گلبرٹ کے مطابق ’ایک وقت پر ہمیں ایک طیارہ چارٹر کرنا پڑا، ویکسین اٹلی میں تھی اور یہاں اگلے دن ہمارے کلینک تھے۔‘
معمولی، لیکن اہم چیک
کوالٹی کنٹرول کبھی بھی کسی پراجیکٹ کا دلفریب حصہ نہیں ہوتا، لیکن تحقیق کار اس وقت تک کسی کو ویکسین نہیں دے سکتے جب تک انھیں یقین نہ ہو کہ اسے اعلیٰ معیار کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔
مینوفیکچرنگ کے عمل کے ہر مرحلے پر، انھیں اسے یقینی بنانے کی ضرورت تھی کہ ویکسین کسی وائرس یا بیکٹریا سے آلودہ نہیں ہوئی ہے۔ ماضی میں یہ ایک لمبا عمل ہوا کرتا تھا۔
’اگر ہم وقت کم کرنے کے بارے میں سوچتے ہوتے تو شاید ہم مارچ میں ہی ویکسین بنا لیتے، لیکن ہم نے جون تک کام شروع نہیں کیا۔‘
بلکہ جب جانوروں پر ٹرائل سے پتہ چلا کہ ویکسین محفوظ ہے تو تحقیق کار 23 اپریل کو انسانوں پر ٹرائل شروع کرنے کے قابل ہوئے۔
بیک۔ٹو۔بیک ٹرائل
اس کے بعد سے آکسفورڈ ویکسین ہر اس مرحلے سے گزری ہے جن سے ویکسین کو عموماً گزرنا پڑتا ہے۔
کلینیکل ٹرائلز کا ایک نمونہ ہوتا ہے:
پہلا مرحلہ ۔ ویکسین کو انسانوں کی کم تعداد پر ٹیسٹ کیا جاتا ہے تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ ویکسین محفوظ ہے
دوسرا مرحلہ ۔ زیادہ لوگوں پر سیفٹی ٹیسٹ، اور اس طرح علامات پر دھیان رکھنا کہ ویکسین سے اسی طرح کا ردِ عمل ہو رہا ہے جس طرح کا درکار ہے۔
تیسرا مرحلہ ۔ بڑا ٹرائل، جس میں ہزاروں لوگ شامل ہوتے ہیں، تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ واقعی لوگوں کا تحفظ کرتی ہے۔
آکسفورڈ ویکسین ان تمام مراحل سے گزر کر آئی ہے، جس میں تیسرے مرحلے میں 30,000 رضاکار بھی شامل ہیں، اور ٹیم کے پاس اتنا ڈیٹا موجود ہے جتنا کسی بھی ویکسین کے ٹرائل کے لیے درکار ہوتا ہے۔
بس صرف یہ نہیں ہوا کہ ہر مرحلے میں کئی سال لگے ہوں جیسا کہ ماضی میں لگتے تھے۔
ڈاکٹر مارک توشنر جو کیمرج میں ٹرائلز میں شامل تھے کہتے ہیں کہ یہ خیال کہ ایک ویکسین کو بنانے کے 10 سال درکار ہوتے ہیں، گمراہ کن ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اکثر اوقات، زیادہ تر کچھ نہیں ہو رہا ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ گرانٹ کے لیے درخواستیں لکھنے کے عمل جیسا ہے، وہ رد ہوتی ہیں، انھیں پھر لکھا جاتا ہے، ٹرائل کے لیے ان کی منظوری لی جاتی ہے، مینوفیکچرر سے سودے بازی ہوتی ہے، اور پھر اس میں حصہ لینے کے لیے درکار لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں جانے میں سال لگ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر توشنر کہتے ہیں کہ یہ عمل لمبا ہے، اس لیے نہیں کہ اسے ایسا ہونا چاہیئے اور نہ ہی اس لیے کہ یہ محفوظ ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ حقیقی دنیا میں ہے۔
حفاظت میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ بلکہ ٹرائلز کو کرنے کے لیے بے مثال سائنسی زور، اس میں حصہ لینے کے لیے لوگوں کی بھیڑ، اور یقیناً پیسے نے ان سب روکاٹوں کو ختم کر دیا جو کہ عموماً سامنے آتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ مستقبل میں مسائل سامنے نہیں آئیں گے۔ میڈیکل ریسرچ اس طرح کی گارنٹیاں نہیں دے سکتی۔ عام طور پر ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹس یا تو جب یہ دی جاتی ہیں اس وقت ظاہر ہوتے ہیں، یا پھر کچھ مہینوں کے بعد۔ ایسا ممکن ہے کہ جب لاکھوں لوگوں کو امیونائز کیا جائے تو کچھ کمیاب مسائل سامنے آئیں، لیکن ایسا ہر نئی بنائی جانے والی ویکسین کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔
اگلا مرحلہ بھی بہت تیز ہو گا
ویکسین کے لیے ریگیولیٹری منظور اور اسے بنانے کے منصوبے بھی ڈرامائی طور پر بہت تیزی سے عمل پذیر ہوئے ہیں۔
برطانیہ کے پاس اس وقت چالیس لاکھ ویکسین تیار پڑی ہیں۔ آکسفورڈ کی ٹیم نے دوائیاں بنانے والی کمپنی ایسٹرا زینکا کے ساتھ مل کر نتائج آنے سے بہت پہلے ہی ویکسین بنانی شروع کر دی تھی۔ اس وقت یہ ایک قسم کا جوا تھا، لیکن یہ خوش قسمتی سے کامیاب رہا۔
ریگیولیٹر جن کو عموماً اس وقت شامل کیا جاتا ہے جب ٹرائلز ختم ہو چکے ہوں، انھیں بھی پہلے ہی شامل کر لیا گیا تھا۔
برطانیہ کی میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگیولیٹری ایجنسی آکسفورڈ ویکسین کی سیفٹی، مینوفیکچرنگ کے معیارات اور افادیت کے بار بار جائزے لے رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ فیصلہ جلد ہو جائے گا کہ کیا ویکسین استعمال کی جا سکتی ہے۔
آکسفورڈ ویکسین، فائزر اور موڈرنا کی طرح، دنیا کے پاس ریکارڈ وقت میں پہنچ گئی ہے، اور دنیا کو اس کی بہت زیادہ ضرورت بھی ہے۔