ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل سے پہلے انہیں بہت ہی کم لوگ جانتے تھے۔ لیکن ایک چیز واضح ہے کہ وہ بہت ہی اہم خفیہ شخصیت تھے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو دفاعی میدان میں ایران شاید وہاں نہ ہوتا، جہاں آج کھڑا ہے۔
اسرائیل کے مطابق محسن فخری زادہ ایرانی جوہری ہتھیاروں کے ‘فادر‘ تھے۔ وہ اس قدر اثر و رسوخ رکھتے تھے کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی بھی ان سے ملاقاتیں رہتی تھیں۔ ان کے قتل کے بعد جو تصویر شائع کی گئی، وہ سپریم لیڈر کے ساتھ ہی ہے اور یہ جنوری سن دو ہزار انیس میں لی گئی تھی۔
وہ اس قدر اہمیت کے حامل تھے کہ ان کے قاتلوں نے انہیں دن دیہاڑے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ عمومی طور پر ایسی تمام خفیہ کارروائیاں رات کو کی جاتی ہیں۔ ایران کے اعلیٰ سکیورٹی اہلکار علی شام خانی کے مطابق ان پر حملہ ‘نئے اور پیچیدہ طریقہ کار‘ کے تحت کیا گیا۔ تہران حکومت نے اس حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے۔
ان کی موت کے بعد ایرانی وزیر دفاع امیر حاتمی کا کہنا تھا کہ وہ ان کے نائب وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ ‘ڈیفنس انوویشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن‘ (ایس پی این ڈی) کے سربراہ بھی تھے۔
جوہری پروگرام میں خفیہ کردار
امیر حاتمی کے بقول انسٹھ سالہ فخری زادہ وہ سینئر عہدیدار تھے، جو ‘جوہری دفاعی انتظامات‘ کو سنبھالتے تھے اور ان کی ‘انتھک کوششوں نے دفاعی میدان میں اہم کردار‘ ادا کیا۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتین یاہو نے اپریل سن دو ہزار اٹھارہ میں کہا تھا کہ وہ ایرانی خفیہ جوہری پروگرام کے سربراہ تھے۔ ایران ایسے کسی خفیہ پروگرام کا انکار کرتا آیا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے وابستہ کریم سجادپور کا کہنا ہے، ”ان کی موت کے ممکنہ اثرات کا پتا لگانے کے لیے اگر سال نہیں تو مہینے ضرور لگیں گے۔‘‘
ان کا ٹوئٹر پر کہنا تھا، ”جن کو جوہری پروگرام میں فخری زادہ کے کردار کا پتا ہے، وہ بالکل خاموش ہیں اور جو بول رہے ہیں، انہیں بالکل اندازہ ہی نہیں ہے۔‘‘ ایرانی وزیر دفاع کا کہنا تھا، ” پاسداران انقلاب میں ان کی خدمات پر سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔‘‘ ان کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاسداران انقلاب کے رکن بھی تھے۔
موساد کا نمبر ون ٹارگٹ
امریکی میڈیا نے فخری زادہ کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا نمبر ون ٹارگٹ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہی ‘ایرانی جوہری پروگرام کے ماسٹر مائنڈ‘ تھے۔ ایرانی وزیر دفاع کے مطابق، ”ہمیں معلوم ہے کہ متعدد مواقع پر انہیں نشانہ بنانے کی تیاری کی گئی اور ان کا پیچھا کیا گیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”وہ گزشتہ بیس برسوں سے دشمن کے نشانے پر تھے۔‘‘
اسرائیلی وزیر اعظم کی تقریر سے پہلے ان کا ذکر بین الاقوامی جوہری ادارے کی دسمبر دو ہزار پندرہ کی ایک رپورٹ میں ملتا ہے۔ آئی اے ای اے کو شبہ تھا کہ وہ سن دو ہزار کے اوائل سے ایرانی جوہری سرگرمیوں میں اہم کردار اد اکر رہے تھے۔ ایران نے اس پروگرام کا آغاز اسی کی دہائی میں کیا تھا۔
آئی اے ای اے کی رپورٹ کے مطابق وہ ‘اے ایم اے ڈی‘ نامی منصوبے کو چلا رہے تھے، جسے سن دو ہزار تین کے اواخر میں ترک کر دیا گیا تھا۔ مارچ دو ہزار سات میں اقوام متحدہ نے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کی وجہ سے، جن افراد پر پابندیاں عائد کی تھیں، ان میں فخری زادہ بھی شامل تھے۔ سکیورٹی کونسل کی قرارداد میں ان کا ذکر ‘ایک سینئر سائنسدان‘ اور ‘فزکس ریسرچ سینٹر کے سابق سربراہ‘ کے طور پر ملتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت آئی اے ای اے نے فخری زادہ کی سرگرمیوں سے متعلق پوچھنے کے لیے ان سے انٹرویو کی درخواست کی تھی، جسے ایران نے مسترد کر دیا تھا۔
ایرانی نائب صدر علی اکبر صالحی (اٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران کے سربراہ) کے مطابق فخری زادہ نے ‘جوہری طبیعیات اور انجینئرنگ‘ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور انہوں نے اپنا تھیسس فریدون عباسی دیوانی کے ہمراہ کیا تھا۔ فریدون عباسی اٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں اور سن دو ہزار دس میں ہونے والے ایک قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے تھے۔
فریدون عباسی دیوانی نے مقتول سائنسدان کو اپنا قریبی دوست قرار دیتے ہوئے کہا، ‘گزشتہ چونتیس برسوں سے ان کا پیشہ وارانہ اور قریبی تعلق تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران عراق جنگ میں بھی وہ شانہ بشانہ لڑے تھے۔ فریدون عباسی دیوانی کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”انہوں نے ملکی جوہری پروگرام کے لیے تمام شعبوں میں کام کیا، خاص طور پر یورینیم کی افزودگی کے لیے۔‘‘
انہوں نے فخری زادہ کو ایک قابل مینیجر اور قابل سائنسدان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا سائنس اور ٹیکنالوجی میں وہی درجہ ہے، جو مقتول جنرل سلیمانی کا فوج میں تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی جنوری میں عراق میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
فخری زادہ کے قتل کے بعد ان کی اہلیہ کا سرکاری ٹیلی وژن پر ایک بیان نشر کیا گیا، جس میں ان کا کہنا تھا، ”وہ ایک رحم دل اور شفیق شوہر تھے، جو اپنے وطن سے محبت کرتے تھے۔‘‘