ان دنوں پارلیمنٹ میں پیش کرنے کیلئے ایک مسودہ قانون علمی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں اہل تشیع کے لیے بعض معاملات میں فقہ جعفریہ کے مطابق قانونی فیصلوں کی گنجائش پیدا کی گئی ہے، بتایا گیا ہے کہ یہ بِل ایوان بالا میں عنقریب منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا، پاکستان میں دستوری طور پر شرعی قوانین کا نفاذ اور لوگوں کو قرآن و سنت کے مطابق ان کے مقدمات، تنازعات اور معاملات طے کرنے کے انتظامات کرنا حکومت کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے اور اس کے لیے وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ پیش رفت ہوتی رہتی ہے، قرآن و سنت کی بالا دستی دینی تقاضہ ہونے کے ساتھ ساتھ دستوری ضرورت بھی ہے، البتہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کے لیے کسی ایک فقہ کو بنیاد بنانے کی بجائے ایک متبادل دائرہ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کی صورت میں طے کیا گیا ہے اور اس کے مطابق نظام چل رہا ہے، پاکستان بننے کے بعد یہ سوال شدت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کی بنیاد کیا ہو گی؟ بالخصوص سنی شیعہ کشمکش کے تناظر میں سیکولر حلقوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اس ماحول میں نفاذ شریعت کی بات کرنا فرقہ وارانہ کشیدگی کو فروغ دینے کے مترادف ہو گا، اس لئے سرے سے اس راستہ کو ہی ترک کر دیا جائے اور ملک کی قانونی نظام کی اساس سیکولرزم پر رکھی جائے جس کے جواب میں تمام مکاتبِ فکر کے 31 اکابر علماءکرام نے 22 متفقہ دستوری نکات پیش کر کے واضح کیا تھا کہ نفاذ اسلام کے بنیادی معاملات پر سنی اور شیعت سمیت تمام مکاتب فکر متفق ہیں، چنانچہ اس کے بعد سے قومی اور ملی مسائل پر مشترکہ موقف اور جد و جہد کی روایت چلی آرہی ہے حتیٰ کہ ملک میں غالب اکثریت رکھنے والے احناف نے بھی اس ٹائٹل کو اختیار کرنے سے یہ سمجھ کر گریز کیا کہ دنیا کے مسلمہ اصولوں کے مطابق ملک کی اکثریت کی فقہی تعبیرات کو ہی ترجیح حاصل ہو گی جیساکہ ایران میں فقہ جعفریہ اور مصر میں فقہ شافعی کو حاصل ہے۔
اس پس منظر میں جب انقلاب ایران کے بعد پاکستان میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا آغاز ہوا تو ہم نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا کہ اس سے فرقہ وارانہ عنوانات اور کشمکش کا تاثر نمایاں ہو گا اور قومی وحدت کو نقصان پہنچے گا، چنانچہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے ایک حصہ نے اپنے نام سے نفاذ کا لفظ حذف کر کے تحریک جعفریہ کا ٹائٹل اختیار کر لیا جبکہ دوسرا حصہ ابھی تک تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے عنوان سے مصروف عمل ہے۔
ہمیں اہل تشیع کے جائز قانونی اور مذہبی حقوق سے کبھی اختلاف نہیں رہا مگر الگ فقہی عنوان کے ساتھ کسی امتیاز کو قانونی شکل دینے کی صورت ہمارے نزدیک محل نظر ہے حالانکہ مروجہ انگریزی قانونی نظام جب برطانوی حکومت نے 1857ء کے دوران نافذ کیا تھا تو اس سے قبل فقہ حنفی ہی پورے متحدہ ہندوستان کے قانونی نظام کی بنیاد تھی اور اصولاً اس کا حق بنتا تھا کہ اس کی جگہ نافذ کیے جانے والے قانونی نظام کو ختم کرنے کی صورت میں سابقہ پوزیشن کو بحال کیا جائے، اس کے علاوہ انقلاب ایران کے بعد جب ایران کی مذہبی حکومت کی طرف سے ملک کے قانونی نظام میں فقہ جعفریہ کو اس کی اساس قرار دیا ہے اس لئے کہ وہ ملک کے عوام کی اکثریت کا فقہی مذہب ہے۔
لیکن اس سب کچھ کے باوجود ”فقہ حنفی“ کا یہ استحقاق واضح ہوتے ہوئے بھی اس ٹائٹل پر اصرار نہیں کیا گیا جبکہ اہل تشیع کی طرف سے اس ٹائٹل پر اصرار بدستور موجود ہے جس کی تازہ مثال یہ مسودہ قانون ہے، جس میں اہل تشیع کے کچھ مطالبات کو فقہ جعفریہ کے عنوان کے ساتھ قانون میں شامل کر کے فقہی تقسیم کو قانوناً تسلیم کرنے کی صورت پید اکی جا رہی ہے، ہمارے نزدیک یہ بات اب بھی محل نظر ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ مسودہ قانون اس شکل میں منظور کر لیا گیا تو ملک کے قانونی نظام میں فرقہ وارانہ الگ الگ فقہی عنوانات کا دروازہ کھل جائے گا اور سیکولر حلقوں کو موقع ملے گا کہ وہ اس کی آڑ میں سرے سے شرعی قوانین کے نفاذ و اطلاق کو ہی متنازعہ بنانے کی مہم تیز کر دیں۔
اس لئے ہم حکمران اداروں اور پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی دونوں طرف کے علمی حلقوں سے گزارش کریں گے کہ وہ اس صورت حال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور ملک و قوم کو کسی ایسے راستے پر لے جانے سے گریز کریں جو عالمی سیکولر استعمار اور ملک میں نفاذ اسلام کو متنازعہ قرار دینے والے سیکولر حلقوں کے ایجنڈے کیلئے تقویت کا باعث بن سکے۔