قطر ایمبیسی کے ٹویٹر ہینڈل کے مطابق آج قطری سفیر جناب سعود بن عبد الرحمن آل ثانی نے اسلام آباد میں موجود ایک کھلے آسمان تلے واقع سکول کا دورہ کیا اور اساتذہ و طلبہ میں مفت کتابیں،سردیوں میں استعمال کرنے کے گرم کپڑے اور لیپ ٹاپس جیسی دیگر اشیاء تقسیم کیں۔
یہ سکول اسلام آباد ایف-6 کی کچی آبادی میں ایک ایسا سکول ہے، جس کے پاس کوئی عمارت نہیں بلکہ کھلے آسمان تلے پارک میں بیٹھے ایک استاد کا قائم کردہ ایسا سکول ہے جو گذشتہ تین عشروں سے روڈوں پر پھول بیچنے والے، صفائی کرنے والے اور گاڑیاں صاف کرنے والے کم سن بچوں کو مفت تعلیم فراہم کررہا ہے۔ اسلام آباد کی کرسچن کالونی میں ایک کچے کمرے میں رہنے والے استاد ماسٹرمحمد ایوب نے یہ سکول 1982 میں قائم کیا ۔ ماسٹر محمد ایوب پیشے کے اعتبار سے استاد نہیں ہیں، تاہم انہوں نے "ماسٹر” لفظ کو اتنا معتبر بنادیا ہے کہ اب ہر کوئی انہیں استاد کا درجہ دیتا ہے۔ وہ آگ بجھانے والے سرکاری محکمے میں بطور فائر مین ملازم ہیں۔
ماسٹر محمد ایوب کی اس تعلیم دوستی کی بناپر انہیں 2015 میں صدارتی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ وہ اب تک 6ہزار بچوں کو میٹرک اور ایف اے کروا چکے ہیں۔ جس طرح ٹھیلے والے، ردی اخبار کی خریداری کی آوازیں گلی محلوں میں لگاتے پھرتے ہیں اسی طرح ماسٹر ایوب نے اسلام آباد کی گلیوں میں پھرتے، ہوٹلوں میں کام کرتے ناخواندہ بچے اور گھروں میں کام کرتی خواتین کے بچوں کو آوازیں دے دے کر اور گھوم پھر کر اکٹھا کیا اور پڑھایا۔ ماسٹر ایوب کی کوئی سکول بلڈنگ نہیں، کمرہ، چاردیواری ،ڈیسک، یونی فارم نہ بچوں کے ہاتھوں میں لنچ بکس۔ انٹری ٹیسٹ نہ فیس حتیٰ کہ میرٹ سفارش اور عمر کی بھی قدغن نہیں۔
یہ ایک عجیب کرشماتی سکول ہے، جسکی کوئی مثال ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ ماسٹر ایوب کوجو بچہ بے کار اور آوارہ پھرتا مل جائے، وہ اسکو اپنے سکول میں داخل کرلیتے ہیں، رجسٹر میں نام درج کرتے ہیں اور اسکی پڑھائی شروع کروادیتے ہیں۔
ماسٹر ایوب نے اس قول کو ثابت کر دکھایا ہے کہ علم پیسے سے نہیں جذبے سے حاصل ہوتا ہے اور جذبے صادق ہوں تو راستے آسان ہو جاتے ہیں۔ ماسٹر ایوب کو شروع شروع میں بہت مشکلات درپیش رہیں۔ مگر حوصلے، استقامت اور صبر سے صبر ایوبؑ کی سنت ادا کر دی۔
ماسٹر ایوب کے سکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں نہ بڑے دنوں کی۔ احتجاج کا مسئلہ نہ یونین کی پریشانی۔ ٹاٹ ہے نہ بجلی ،ہاں بارش ہو توپھر چھٹی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ماسٹر ایوب کھلے آسمان تلے پڑھاتے ہیں۔ ان کا سکول پارک سکول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امتحان کے دنوں میں صبح 5سے سات بجے تک سپیشل کلاس بھی ہوتی ہے۔ البتہ معمول کی کلاسیں روزانہ ساڑھے تین بجے سے سات بجے تک ہوتی ہیں۔ مغرب کے بعد کلاسیں سٹریٹ لائٹ کے نیچے چلی جاتی ہیں اور لوڈ شیڈنگ کی صورت میں مغرب کے بعد چھٹی ہو جاتی ہے۔ سکول کا آغاز کلام پاک سے ہوتا ہے اور پھر قومی ترانہ پڑھایا جاتا ہے۔
ایک لڑکے سے شروع ہونے والے سکول میں اب قریب قریب تین سو تک بچے زیر تعلیم رہتے ہیں۔ ماسٹر ایوب کا اوپن ائیر سکول بڑی بڑی فلاحی تنظیموں، انسانیت کی بھلائی کی دعویدار این جی اوز کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سکول بغیر کسی بنیادی سہولت کے اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والی اس عظیم درس گاہ میں سردی گرمی سے بے نیاز پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایسے بچے پڑھنے آتے ہیں جنہیں پیٹ بھر کے کھانا بھی میسر نہیں ہوتا۔ بچے اپنی اپنی چٹائیاں ساتھ لاتے ہیں بعض ایسے بھی ہیں جو چٹائیاں لانے کی سکت نہیں رکھتے۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ قطری سفیر جناب سعود بن عبد الرحمن آل ثانی اس سکول کی جانب متوجہ ہوئے ہیں اور انکی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان میں قطرحکومت اور قطر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام بہت سارے تعلیمی پراجیکٹ پہلے سے کام کررہے ہیں۔ قطر حکومت کی ترجیحات میں تعلیم کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان سمیت تیس سے زیادہ ممالک میں قطر حکومت تعلیمی پراجیکٹس چلا رہی ہے جس میں ہزاروں پاکستانی بچوں کو تعلیمی وظائف فراہم کرنا بھی شامل ہے۔اگر کسی باقاعدہ پراجیکٹ کے تحت قطری حکومت اسلام آباد میں وسائل نہ ہونے کی بنیاد پر تعلیم سے محروم بچوں کے لیے اگر ایک سکول تعمیر کروادے تو یہ قطری حکومت کا ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔
ماضی میں ماسٹر محمدایوب اور ان کے سکول کی سرپرستی کرنے والوں میں ممتاز شاعر احمد فراز اور انکی اہلیہ کا نام نمایا رہا ہے مگر افسوس کہ آج ان کے فرزند حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود اس سکول کی کوئی خدمت کرنے سے عاجز ہیں۔ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں جسے ہماری حکومت حل نہیں کرسکتی مگر ہماری حکومت کی ترجیحات شاید کچھ اور ہیں۔ قطر حکومت کا یہ اقدام پاکستان میں وسائل سے محروم بچوں کے لیے ایک بڑی نعمت سے کم نہیں ہوگا۔