وفاقی شرعی عدالت نے ایک دفعہ پھر سودی قوانین کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع کی ہے۔ یہ مقدمہ جون 2002ء میں سپریم کورٹ نے واپس وفاقی شرعی عدالت کی طرف بھیج دیا تھا۔ تب سے یہ بہت ہی سست رفتار سے چل رہا ہے اور ابھی تک عدالت بالکل ابتدائی سوالات سے آگے نہیں بڑھی۔
پچھلی سماعت میں سٹیٹ بینک کی جانب سے سلمان اکرم راجا صاحب نے دلائل دیے ہیں اور ان کی سوئی اسی بات پر اٹکی ہوئی تھی کہ وفاقی شرعی عدالت کے پاس یہ مقدمہ سننے کےلیے اختیارِ سماعت ہی نہیں ہے کیونکہ دستور کی بعض دفعات میں انٹرسٹ کا لفظ آیا ہے تو اگر یہ عدالت انٹرسٹ کو ختم کرنے کی بات کرے گی تو یہ گویا دستوری دفعہ کو کالعدم قرار دے گی جس کا اس کے پاس اختیار نہیں ہے۔
اس بات کی لغویت واضح ہے لیکن اس سے اندازہ لگائیے کہ سٹیٹ بینک نے اس معاملے میں کیا پوزیشن لی ہوئی ہے اور ان کے ارادے کیا ہیں؟
عدالت نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور انھیں کیس کے میرٹس پر بات کرنے کےلیے کہا جس کے بعد انھوں نے جنوری تک التوا کی درخواست کی۔ عدالت نے 18دسمبر کی تاریخ دی (ویسے اس کے بعد عدالت کی چھٹیاں ہونے والی ہیں جس کے بعد ویسے بھی اگلی سماعت جنوری سے پہلے ممکن نہیں ہوگی۔) التوا والی عرضی قبول نہیں ہوئی تو وکیل صاحب نے اگلا پتہ یہ پھینکا کہ دستور کی جس دفعہ میں ربا کے خاتمے کی بات کی گئی ہے، ایک تو اس میں مدت کا تعین نہیں کیا گیا، دوسرے وہ پالیسی کے اصولوں کے باب میں ہے اور عدالت کو پالیسی کے امور میں نہیں جانا چاہیے بلکہ اسے حکومت اور مقننہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس پر عدالت نے پوچھا کہ حکومت نے اب تک اس ضمن میں کیا اقدامات اٹھائے ہیں اور مقننہ نے کیا قانون سازی کی ہے؟ اس نے وکیل صاحب سے اس کے بارے میں اگلی سماعت میں تفصیلات دینے کا کہا۔
یہاں ایک تو یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ وکیل صاحب عدالت کو اس بحث میں الجھانا چاہتے ہیں جس کے بعد اس کے پاس التوا کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اگلی دفعہ وکیل صاحب سٹیٹ بینک سے بہت سے نمائشی اقدامات کی تفصیل دستاویزات سمیت پیش کرکے یہ مطالبہ کریں گے کہ حکومت چونکہ اس معاملے میں سنجیدہ ہے اس لیے عدالت اسے کام کرنے دے اور فوری طور پر ان قوانین کو کالعدم قرار دینے کا حکم جاری نہ کرے۔ (واضح رہے کہ بعینہ اس طرح کے حربے حکومت اور متعلقہ ادارے 1980ء سے مسلسل استعمال کرتے آئے ہیں۔)
اس پر دوسری اہم بات یہ نوٹ کیجیے کہ ایسا کرکے وہ خود اپنی دلیل کو، کہ عدالت کو پالیسی کے بجاے قانون پر توجہ کرنی چاہیے، رد کردیں گے۔ وہ ایسے کہ عدالت کا کام صرف یہ دیکھنا ہے کہ کیا سودی قوانین اسلامی احکام سے متصادم ہیں یا نہیں اور اس مقصد کےلیے اسے صرف اس سوال کا جواب متعین کرنا ہے کہ کیا سود ربا کے مفہوم میں داخل ہے یا نہیں؟ ایک دفعہ یہ متعین ہوجائے کہ سود ربا کے مفہوم میں داخل ہے، تو ان قوانین کا اسلامی احکام سے تصادم ثابت ہوجائے گا۔ اس کے بعد عدالت کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ حکومت کو مخصوص مدت کی پابند بنا کر حکم دے کہ ان قوانین سے وہ شقیں دور کردے جو سود کی اجازت دیتی ہیں کیونکہ وہ اسلامی احکام سے متصادم ہیں اور مزید یہ اعلان کرے کہ اگر اس مدت میں حکومت نے یہ قوانین تبدیل نہیں کیے تو مدت ختم ہونے پر یہ تصادم کی حد تک از خود کالعدم ہوجائیں گے۔
عدالت کا کام بس اتنا ہی ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ سود ختم ہوجائے تو معیشت کیسے چلے گی؟ نظام کیسے چلے گا؟ زمین پھٹ جائے گی یا آسمان گر جائے گا، متبادل نظام کیا ہوگا اور کیسے کام کرے گا؟ یہ دیکھنا عدالت کا کام نہیں، بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ پالیسی اور انتظامی امور ہیں جو حکومت اور مقننہ نے دیکھنے ہیں۔ عدالت نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ یہ قوانین اسلامی احکام سے متصادم ہیں یا نہیں؟ لیکن مقدمے کے رخ سے اندازہ ہورہا ہے کہ عدالت کو کس طرف لے جایا جارہا ہے اور کن امور میں الجھایا جارہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ بتانے کےلیے کہ اس بارے میں درست سمت کیا ہے اور عدالت کیسے اس سمت سفر کرے، سب سے زیادہ ذمہ داری کس طبقے پر عائد ہوتی ہے؟ کیا جلسے جلوسوں اور ہا ہو میں مصروف اہلِ علم اس طرف بھی کچھ توجہ کرنے کی زحمت گوارا کریں گے؟ سب نہیں، زیادہ نہیں، تو بس چند اہلِ علم کو بھی اس کام کےلیے مختص نہیں کیا جاسکتا؟