تاريخی اعتبار سے ديکھا جائے تو ری پبلکن صدور ڈيموکريٹک صدور کی نسبت پاکستان کے حق ميں زیادہ بہتر ثابت ہوئے ہيں۔ امريکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمالہ ہيرس کی حکومت سے پاکستانيوں کی کئی توقعات وابستہ ہيں۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امريکا کا ايک اہم حليف رہا ہے جس کا اقرار ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر جارج بش نے بھی کيا۔ صدر بش کا کہنا تھا کہ امريکا دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی مدد کے بغير نہيں لڑ سکتا تھا۔
صدر باراک اوباما کا تعلق ڈيموکريٹک پارٹی سے تھا، انہيں بہت بڑی تعداد ميں پاکستانی نژاد امريکيوں کی حمايت بھی حاصل تھی مگر ان کے دورحکومت ميں امريکا اورپاکستان کے تعلقات سرد رہے۔ اس کی وجہ اوباما حکومت نے پاکستان ميں طالبان کے محفوظ ٹھکانے اور القاعدہ کی پاکستان ميں موجودگی بتائی تھی۔ اس طويل سرد سياسی مدت کے بعد ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا آغاز ہوا۔ چار سال کی صدارتی مدّت کے ابتدائی دوسال کے دوران پاکستان اور امریکا کے تعلقات دباؤ کا شکار رہے جس ميں صدر ٹرمپ نے پاکستان امريکی تعلقات کو جھوٹ پر مبنی قرار ديتے ہوئے پاکستان کی 1.3بلين ڈالرز کی سکيورٹی امداد بند کر دی۔
مگر يہ صورت حال گزشتہ دو سالوں ميں بہت مختلف نظر آئی۔ صدر ٹرمپ امريکی افواج کا افغانستان سے پرامن انخلاء چاہتے تھے جس کے ليے انہيں پاکستان کی مدد کی ضرورت تھی۔ اس سلسلے ميں پاکستان نے ايک اہم کردار ادا کيا جس سے پاکستان اور امريکا کے درميان بہتر تعلقات کا دوبارہ آغاز ہوا۔ اب جبکہ ری پبلکن حکومت ختم ہو رہی ہے اور ڈيموکريٹک حکومت اپنے چار سال شروع کرنے والی ہے، يہ سوال بہت اہم ہے کہ پاکستان، امريکا تعلقات کی صورتحال کیا رہے گی؟
واشنگٹن ميں پاکستان کے سفير ڈاکٹراسد مجيد نے ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، امريکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہميت ديتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاک امريکا تعلقات اتنے ہی پرانے ہيں جتنا کہ خود پاکستان۔ نو منتخب صدر بائيڈن کی انتظاميہ سے وابستہ پاکستان کی توقعات پر ان کا کہنا تھا، ”بائيڈن کی تجربہ کار ٹيم پاکستان اور امريکا کے سفارتی تعلقات اور خطے ميں اس کی اہميت سے بخوبی واقف ہے اور پاکستان، امريکا کےساتھ دوطرفہ علاقائی تعلقات پر مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔‘‘
افغانستان سے امريکی افواج کے پر امن انخلا اورافغانستان ميں امن کے قيام ميں پاکستان کے اہم کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”افغانستان ميں امن اور سياسی استحکام پاکستان اور امريکا کا مشترکہ مقصد ہے جس ميں پاکستان ايک کليدی کردار ادا کر رہا ہے۔‘‘
تاہم پاکستانی صحافی اور ڈيلی ٹائمز پاکستان کے سفارتی امور کے ايسوسی ايٹ ايڈيٹر، حسن خان کہتے ہیں کہا کہ بائيڈن حکومت سے پاکستان کی توقعات درميانے درجے کی ہونی چاہيیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ امريکا اور پاکستان دونوں افغانستان ميں امن کے خواہاں ہيں اس لیے يہ اميد کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درميان سفارتی تعلقات مستحکم رہيں گے۔ حسن کے تجزيے کے مطابق کشمير کا مسئلہ اسلام آباد کی اولين ترجيح ہو گی اور وزير اعظم عمران خان يقيناﹰ اس کا پرامن حل چاہيں گے مگر ديکھنا يہ ہے کہ يہ حل کن شرائط و ضوابط پر منحصر ہوگا؟
’پاک پيک یو ایس اے‘ ا کے قومی بورڈ کے صدر ڈاکٹر کامران راؤ نے ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آنے والی بائیڈن انتظاميہ سے توقعات وابستہ کرنے سے پہلے پاکستان کو يہ سمجھنا ہو گا کہ امريکا، اسرائیل یا امريکا، بھارت تعلقات برسوں کی محنت کا نتيجہ ہيں جبکہ پاکستان نے ان تعلقات پر کام ابھی شروع کيا ہے۔ یہ ايک طويل جدوجہد ہے جس کے خاطر خواہ نتائج ديکھنے کے ليے ہميں اس کی نگہداشت کرنا پڑے گی۔
کشمير کے حوالے سے بھارت کی کشمير ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بائیڈن حکومت سے بيشتر پاکستانيوں کی توقعات وابستہ ہيں۔ اس سلسلے ميں ڈاکٹر راؤ کا کہنا ہے، ”بائيڈن انتظاميہ کا ايک بڑا حصّہ بھارتی نژاد امريکيوں پرمشتمل ہے، اس ليے يہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہيں آتا۔ اس کے علاوہ ہميں امريکا ميں مقيم کشميريوں ميں اتحاد نظر نہيں آتا۔ اصل کشميريوں کی نمائندگی بھی نظر نہيں آتی، زیادہ تر وہ کشميری ہيں جن کا تعلق آزاد جموں و کشمير سے ہے اور جن کا يہ مسئلہ ہی نہيں ہے۔‘‘
اسی مسئلے پر ڈيلی ٹائمزکے حسن خان کا کہنا ہے، ”بائیڈن حکومت سے پاکستان کی توقعات کشمير کے حوالے سے اہميت کی حامل ہوں گی۔ صدر ٹرمپ نے کشمير کے معاملے ميں دو مرتبہ پاکستان اور بھارت کے درميان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پيشکش کی مگر نئی دہلی کا ردعمل مثبت نہيں تھا۔‘‘
امريکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمالہ ہيرس کی حکومت سے پاکستانيوں کی کئی توقعات وابستہ ہيں۔ اس وقت ديکھنا يہ ہے کہ جن مضبوط سفارتی تعلقات کا آغاز صدر ٹرمپ کے آخری دو سالوں ميں ديکھا گيا، کيا بائیڈن انتظاميہ اسی تسلسل کو برقرار رکھتی ہے يا اس ميں کوئی تبديلی آئے گی۔